Wednesday, November 18, 2009

63 -Muse

;;;;;

شاید اس کو ہے محبت مجھ سے
پارناسس سے اتر آتا ہے
میری آنکھوں میں سما جاتا ہے
مجھ پہ افسوں کی طرح چھاتا ہے
شام رکتا ہے کبھی۔۔۔رات ٹھہرتا ہے کبھی
نیند میںخواب کا چہرہ بن کر
جاگتے میں مرا سایا بن کر

دلِ ویراںمیںپری زاد سا آتا ہے کبھی
میرے ہاتھوںکو محبت سے دباتا ہے کبھی
کبھی رخسار سے رخسار لگا دیتا ہے
اپنی آنکھوں کو اک آیئنہ بنا لیتا ہے

مجھ سے کہتا ہے کہ دیکھو ذرا اس چہرے پر
کسی محبوب کی قربت کی چمک ہو جیسے
نرم آنکھوںمیں ستاروںکی دمک ہو جیسے
جیسے آتی ہو رگِ جاںسے لہو کی یہ صدا
یا کہیں دور سے لہراتا ہو سُربانسری کا

چھیڑتا ہے کبھی بالوں کو، کبھی ہونٹوں کو
چومتا ہے کبھی پیشانی، کبھی آنکھوں کو
پھیلتا ہے مرے اطراف میں جادو کی طرح
اجنبی پھولوںکی خوشبو کی طرح
میرے پہلو سے لگے جب۔۔۔ تو لگا رہتا ہے
عاشقِ زار کے پہلو کی طرح

موجہء بادِ صبا بن کے کبھی
میرے ملبوس کو لہراتا ہے
آنکھ بھر کر جو اسے دیکھ لوں میں
جھوم جاتا ہے، مہک جاتا ہے
پاس رہنے کو۔۔۔بہت دیر تلک رہنے کو
آن کی آن میں بھر لیتا ہے کتنے بہروپ
کبھی دیوار پہ چغتائی کی تصویر کوئی
کبھی اس کانچ کے گلدان میں اک نرگسی پھول
کبھی روزن میں چمکتی ہوئی اک ننھی کرن
کبھی کھڑکی سے اُدھر پھیلتی۔۔۔چمکیلی دھوپ

دشت بن جاتا ہے۔۔۔جنگل کبھی بن جاتا ہے
کبھی مہتاب، کبھی آب، کبھی صرف سراب
دُھند ہو جاتا ہے۔۔۔ بادل کبھی بن جاتا ہے
میں جو چاہوں تو برستا ہے یونہی موسلا دھار
اور نہ چاہوں تو عجب عالمِ کم شب کی طرح
دلِ بے کل پہ اُتر آتا ہے

رات بھر۔۔۔ میرے سرہانے سے لگے لمپ کے ساتھ
ایک ہلکے سے اشارے سے ہے بجھتا، جلتا
کبھی اُس گوشہء خاموش میں اک بُت کی طرح
اور کبھی وقت کی رفتار سے آگے چلتا

موج میں آئے تو شب بھر نہیں سونے دیتا
خود ہی بن جاتا ہے بچھڑے ہوئے ساتھی کا خیال
کیف اور درد سے ہو جاتا ہے خود ہی سـیّال
مجھ کو اُس یاد میں تنہا نہیں رونے دیتا
شوق بنتا ہے کبھی۔۔۔عشق کبھی
وصل بنتا ہے کبھی۔۔۔ہجر کبھی
دل نے کب دیکھا تھا چہرہ اِس کا
عشق تھا پہلا شناسا اِس کا

عشق وہ دھوم مچاتا ہوا عشق
جسم پر رنگ جماتا ہوا عشق
دل کو اک روگ لگاتا ہوا عشق

عشق کے سارے ستم ساتھ مرے اس نے سہے
عشق کے ہاتھ سے جو زخم لگے۔۔۔اس نے بھرے
وصل اور ہجر کے افسانے سُنے اور کہے
ہفت اقلیم کے سب راز بتائے اس نے
الف لیلہ کے سبھی قصے سنائے اس نے
میری تنہائی میں الفاظ کا در باز کیا
میری پتھرائی ہوئی، ترسی ہوئی آنکھوں میں
نئی امید، نئے خواب کا آغاز کیا

خواب، خواہش سے چمکتا ہوا خواب
خواب، رنگوں سے مہکتا ہوا خواب
میری پلکوں سے ڈھلکتا ہوا خواب

خواب کے پیچھے مرے ساتھ بہت بھاگتا ہے
میں جو سو جاؤں تو یہ دیر تلک جاگتا ہے
دید کی طرح نگاہوں میں سمٹنے والا
غمِ جاناں کی طرح دل سے لپٹنے والا



شاید اِس کو
ہے محبت
مجھ سے
شوق بن جاتا ہے
یہ، عشق میں
ڈھل
جاتا ہے
پھر مری
زیست کا
مفہوم بدل
جاتا ہے




اپنے پہلو سے نہیں پَل کو بھی ہِلنے دیتا
کارِ دنیا۔۔۔۔غمِ دنیا کا بھلا ذکر ہی کیا
مجھ کو مجھ سے نہیں ملنے دیتا

میرے قالب میں سما جاتا ہے
میرے آیئنے میں آ جاتا ہے
چشمِ حیران کو غزلاتے ہوئے
شاعری مجھ کو بنا جاتا ہے

__________________________________

میوز۔۔۔ یونانی اساطیر کے مطابق زیوس کی نو بیٹیاں، جن میں ہر ایک کسی علم اور فن کی دیوی ہے۔ یہ لفظ انگریزی میں شاعرانہ الہام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اسی لیے اسے صیغہء تذکیر میں استعمال کیا ہے۔
پارناسس۔۔۔ ایک اساطیری پہاڑ، جس پر یہ نو دیویاں رہتی ہیں

;;;;;

Monday, November 16, 2009

62-باغ

;;;;;

یونہی جھانکا تھا روشنی نے ابھی
باغ میں دور تک اندھیرا تھا

بادلوں پر بنا ہوا تھا باغ
باغ میں وہم کے تھے سب اشجار
باغ میں تھے گماں کے سارے پھول
دھند سی راستوں پہ چھائی تھی
اور رستوں کا کچھ نہیں تھا سراغ

شرق اور غرب یا شمال و جنوب
کوئی ملتا نہ تھا طلوع و غروب
کس طرف آسماں کدھر ہے زمیں
دیکھنے والا کوئی تھا ہی نہیں
باغ میں دور تک اندھیرا تھا

یونہی گزرا ہوا کا اک جھونکا
یا پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سے
پانیوں میں ہوئی کوئی ہلچل
یا فرشتے کی نرم آہٹ سے
چونک کر دیکھا اک کلی نے ابھی

خاک کی منجمد نگاہوں پر
خواب روشن کیا کسی نے ابھی
باغ کے بے پنہ اندھیرے میں
آنکھ کھولی ہے زندگی نے ابھی

;;;;;

61-عدن

;;;;;

ہمیں اس باغ میں رہنے دیا ہوتا
وہیں آہ و فغاں کرتے
ہم اپنے ناتراشیدہ گناہوں کی معافی کے لیے
جن کو ہمارے نام پر ۔۔۔ روز ازل سوچا گیا

اس باغ میں سر سبز تھے ہم
پتھروں میں سنگ تھے
پھولوں میں گل تھے
طائروں میں ہم بھی طائر تھے

ہمیں اس نیند میں رہنے دیا ہوتا
جہاں نوزائدہ، معصوم تھے ہم
پر گنہ، ہر لذت تکمیل سے محروم تھے ہم
جسم پر ملبوس آبی تھے
مگر یہ دل حجابی تھے
تو ہم اس عالم خوابیدگی میں
نفس کی پاکیزگی میں
ساتھ تیرے ۔۔۔۔ ساتھ اپنے
ہو چکا وعدہ، وفا کرتے
فرشتوں سے زیادہ ہم ۔۔۔ تری حمد وثنا کرتے

تجھے بھی یاد تو ہو گا
فرشتے جب ادب سے کہہ رہے تھے
''آپ وہ مخلوق پیدا کر رہے ہیں
جو زمیں پر شورشیں برپا کرے گی
خوں بہائے گی

زمیں بھی کانپتی تھی
آزمائش سے پناہیں مانگتی تھی

آسمانوں میں ، زمینوں میں نہاں
سب حیرتوں کو ۔۔۔ سارے رازوں کو
تو ہر اک جاننے والے سے بڑھ کر جانتا ہے
اپنی ہر اک مصلحت کو
خود ہی بہتر جانتا ہے

پھر بھی بہتر تھا
ہمیں اس قریہء شاداب میں رہنے دیا ہوتا
وہیں ۔۔۔ اک نامکمل خواب میں
رہنے دیا ہوتا

;;;;;

60-راز آشنا تو نہیں

;;;;;

ازل سے، ساتھ کوئی راز آشنا تو نہیں
یہ میرا دل کسی شاہد کا آئنہ تو نہیں

ہر ایک سانس کے ساتھ ایک آہ گونجتی ہے
نفس نفس میں کسی درد کی ثنا تو نہیں

کسی کے خواب کی تعبیر تو نہیں ہیں ہم
وہ خواب اور کسی خواب سے بنا تو نہیں

جو کاٹ آئے ہیں، دکھ کا عجیب جنگل تھا
جو آنے والا ہے، پہلے سے بھی گھنا تو نہیں

صدائے انجم و مہتاب پر بھی دل خاموش
یہ خاکداں کی کشش ہے، مری انا تو نہیں

یہ شش جہات ہیں اور ان کے بعد ہے اک ذات
اس آئنے میں پھر اپنا ہی سامنا تو نہیں؟

;;;;;

59- ڈھلنے کو ہے

;;;;;

تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے
میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے

کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہئے؟
آنکھ بھی خوں ہو گئ دامن بھی اب گلنے کو ہے

گلستاں میں پڑ گئ ہے رسم تجسیم بہار
اپنے چہرے پر ہر اک گل،خون دل ملنے کو ہے

اجنبی سی سر زمیں نا آشنا سے لوگ ہیں
ایک سورج تھا شناسا،وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے

ہر نئ منزل کی جانب صورت ابر رواں
میرے ہاتھوں سے نکل کرمیرا دل چلنے کو ہے

شہر پر طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے آج
حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے

اک ہوائے تند اور ہمراہ کچھ چنگاریاں
خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے

سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب
کاروان انجم و مہتاب بھی چلنے کو ہے

;;;;;

58-سمندر اداس ہے

;;;;;

سمندروں کی سرمئی ہوائیں کیوں اداس ہیں؟
ہواؤں کے مزاج میں ۔۔سمندروں کی تند بو رچی ہوئی
نمی کی اور مچھلیوں کے جسم کی کثیف بو
یہ مردہ مچھلیوں کے اور سیپیوں کے سرد جسم
ساحلوں کی زرد زرد ریت پر
وہ جیتی جاگتی شریر مچھلیوں کے مضطرب بدن کی بو کہاں گئی
سمندروں کے ساحلوں کی زرد ریت آج کیوں اداس ہے؟


یہ ٹوٹتی ہوئی سی
موج موج نے
اداس ساحلوں سے آج کیا کہا
سمندروں کے خوابناک ساحلوں پہ
کیسا بے حساب
وقتِ شوق بہہ گیا
جو اس سے پہلے لوٹ
کر نہ آ سکا ۔
جو اس کے بعد لوٹ کر
نہ آئے گا
سمندروں کی موج موج کا
وہ نیلگوں اتار اور چڑھاؤ
کیا ہوا؟

وہ صبح کا گلاب رنگ سا افق ۔۔
وہ شام کی سیاہی میں گھلی شفق
وہ پانیوںمیںآفتاب کا رخِ نگارِ آتشیں
سمندروں کے ساحلوں پہ وہ بہارِ آتشیں
بہار کیوں اداس ہے؟

بہار کے پرند کیوں اداس ہیں؟
سمندروں کا حسن ۔۔۔۔ساحلوں کی جان۔۔۔۔ آبی جاندار
ساحلوں پہ جھمگٹا کیے ۔۔۔ سفید و سرمئی حسیں پرند
نرم خو اڑان والے ۔۔۔ اونچی اونچی تان والے ۔۔۔موج موج پر رواں
وہ موج کے، ہواکے، سرمئی فضا کے رازداں

سمندروں پہ کشتیوں کا خوش نظر خرام کیوں اداس ہے؟
سفید بادباں ۔۔۔ ابھی تو دور کے کسی سفر کے واسطے کُھلے نہیں
ابھی مسافروںکے دل۔۔۔ نئی زمیں کی جستجو میں جھوم کر کِھلے نہیں
مسافروں کے نرم دل نجانے کیوں اداس ہیں،
وہ کشتیوں میں آبِ نیلگوںپہ دور دور جاتے مرد و زن کے رنگ رنگ پیرہن
مسافروں کے ربطِ عام سے بدن کی وہ مہک
نگاہ میں عجیب سا وہ خوف و اشتیاق ۔۔۔ ایک اجنبی زمین کا
مگر جبیں پہ دھوپ سی چمک دمک
یہ دھوپ کیوں اداس ہے؟

یہ دھوپ ۔۔۔ ساحلوں کی سرد اور سیاہ ریت پر پڑی ہوئی
یہ مردہ مچھلیوں کی طرح بے وقار اور اداس
سبز پانیوں سے مل کے
بوند بوند تابدار کرنے والی ۔۔۔ گہر گہر آبدار کرنے والی
باوقار دھوپ کیا ہوئی؟
وہ بادبانی کشتیوں پہ دور تک ۔۔۔۔ مسافتوں کا ساتھ دینے والی
اگلے ساحلوں پہ انتظار کرنے والی ۔۔۔ بے شمار دھوپ کیا ہوئی؟ِ
یہ ساحلوںکا شوقِ انتظار کیوںاداس ہے؟

جہاز راں، جو اگلے ساحلوںکی سمت ۔۔۔ مستقل سفر کریں ۔۔۔ کہاں گئے؟
سفید،نیلی وردیوںمیں کسرتی بدن ۔۔۔ جواںجہاز راں
کمر میں جگمگاتی سرخ اور سنہری پیٹیاں کسے ہوئے
وہ لمبی زندگی پہن کے دور جاتے
گہرے پانیوں پہ اجنبی زمیں کا ۔۔۔ حیرتوں میں ڈوبتا ۔۔۔ عجیب راستہ بناتے
عزم سے بھرے جواں جہاز راں
وہ دیو ہیکلوں کو اپنے ہاتھ، اپنی آنکھ کے ۔۔۔۔خفی اشارے سے چلاتے ۔۔۔ مسکراتے
آج کیوں اداس ہیں؟

عجیب مرحلوں کی سمت ۔۔۔ اجنبی مہیب ساحلوں کی سمت
اک سفر کا عزم کیوں اداس ہے؟

ازل سے تا ابد حیات کا سفر ۔۔۔ ازل سے تا ابد یہ بحر نیلگوں
یہ اونچی اٹھتی ۔۔۔ آسماں کو چھوتی لہر لہر میں
تموّجِ حیات بھی ۔۔۔ شکوہِ کائنات بھی ۔۔۔ فنا بھی اور ثبات بھی
ثبات کیوں اداس ہے؟

فنا کا راستہ ابھی نہیں ملا ۔۔۔ ثبات کا پتہ ابھی نہیں ملا
سفر میں آبِ نیلگوں ۔۔۔ سفر میں سب پرند ہیں
سفر میں سب جہاز راں۔۔۔ سفر میں یہ زمینِ جاں ۔۔۔ سفر میں سبز آسماں
مگر یہ خوابِ زندگی ۔۔۔ یہ سطحِ آب پر ۔۔۔ نگاہ میں، حبابِ زندگی
سرابِ زندگی یہی ۔۔۔ یہی ہے آبِ زندگی
سمندروں پہ پھیلتا ۔۔۔ سراب کیوں اداس ہے؟
یہ خوابنائے خواب ۔۔۔ کیوں اداس ہے؟

;;;;;

57-در باز کریں کیا

;;;;;

دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا
منزل ہی نہیں جب،سفرآغازکریں کیا

اُڑتے ہوئے جاتے تھے ستاروں سے بھی آگے
دل ٹوٹ کے گر جائے تو پرواز کریں کیا

کیا شہرِ مراتب میں ہوں مہمان کسی کے
آئے جو کوئی، دعوتِ شیراز کریں کیا

آنکھوں سے کسی خواب کی دوری پہ ہے دنیا
اس دشتِ فراموشی میں آواز کریں کیا

جب اتنی کفایت سے ملے تیری توجہ
کیا خرچ کریں اور پس انداز کریں کیا

تجھ سا جو کوئی ہو تو اسے ڈھونڈنے نکلیں
ایسا نہ ہو کوئی تو تگ و تاز کریں کیا

ناکام تمناؤں پہ محجوب سا اک دل
سرمایہء جاں یہ ہے تو پھر ناز کریں کیا

تجھ ایسا ہو قاتل تو کوئی جاں سے نہ کیوں جائے
ہوں لاکھ مسیحا بھی تو اعجاز کریں کیا

افشائے محبت بھی قیامت سے نہیں کم
اب فاش تری چشم کا ہر راز کریں کیا

;;;;;

Sunday, November 15, 2009

56- سالگرہ

;;;;;

کہیں پناہ نہیں دشتِ رائگانی میں
عجیب موڑ ہے یہ عمر کی کہانی میں

خلا ہے چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک ہے خلا
زمین پاؤں کے نیچے سے جانے کب نکلی
نجانے کب سے خلا آ گیا ہے زیر ِ قدم
فلک تو خیر کبھی دوست تھا ۔۔۔ نہ ہو گا کبھی
زمیں کہاں ہے، کہاں ہے زمیں، کہاں ہے زمیں؟

اندھیرا چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک پھیلا
اندھیرا پاؤں کے نیچے ۔۔۔ اندھیر آنکھوں میں
کہاں ہے دھوپ، کہاں چاندنی، چراغ کی لَو
وہ ملگجا سا اجالا کوئی ستاروں کا
جو رات بھر کو سہارا ہو راہداروں کا

کہاں ہے روشنی ۔۔۔ اِن منتظر مکانوں کے
اداس شیشوں سے چَھنتی ہوئی ۔۔۔ بکھرتی ہوئی



اداس راہگزر
ہر مکاں
مکین اداس
اداس سارا نگر
آسماں
زمین اداس



ہنسی کہاں ہے، کہاں ہے ہنسی، کہاں ہے ہنسی؟

کرن کی طرح چمکتی نہیں ہنسی کوئی
فضا کے دل میں دھڑکتی نہیں ہنسی کوئی

ملال چاروں طرف ۔۔۔۔ آسماں تلک ہے ملال
ملال، پاؤں کے نیچے کہ جس پہ ٹھہرا ہے
وجود ۔۔۔ سائے کے مانند، وہم کی صورت
خوشی کہاں ہے، کہاں ہے خوشی، کہاں ہے خوشی؟

سزا ہے چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک ہے سزا
سزائے جرم نہیں یہ ۔۔۔ سزا ہے، ہونے کی
سزا ہے پاؤںکے نیچے کہ بے زمینی ہے
یہ زندگی ۔۔۔ جو کبھی زندگی تو تھی ہی نہیں
پر اب تو صرف گماں، صرف بے یقینی ہے
یقیں کہاں ہے، کہاں ہے یقیں، کہاں ہے یقیں؟

نہ کوئی دوست، نہ ہمدم، نہ آشنا کوئی
نہ بے وفا ہے کوئی اور نہ با وفا کوئی

کوئی بھی راہ نہیں ۔۔۔ دشتِ رائگانی میں
کہیں بھی موڑ نہیں، ہجر کی کہانی میں
گرہ اک اور لگی ۔۔۔ رشتہء زمانی میں

Monday, November 9, 2009

55-وہ ستارہ ساز آنکھیں

;;;;;

وہ ستارہ ساز آنکھیں
مجھے دور سے جو دیکھیں
تو مرے بدن میں جاگے
کسی روشنی کی خواہش
کسی آرزو کا جادو
کسی حسن کی تمنا
کسی عشق کا تقاضا

مرے بےقرار دل کو
بڑی خامشی سے چھو لے
کوئ نرم رو اداسی
کوئ موج زندگی کی
کوئ لہر سر خوشی کی
کوئ خوش گوار جھونکا

اسی آسماں کے نیچے
اسی بے کراں خلا میں
کہیں ایک سرزمیں ہے
جو تہی رہی نمی سے
رہی روشنی سے عاری
رہی دور زندگی سے
نہیں کوئ اس کا سورج
نہ کوئ مدار اس کا










اسی گمشدہ خلا سے
کسی منزل خبر کو
کسی نیند کے سفر میں
کسی خواب مختصر میں
کبھی یوں ہی بے ارادہ
کبھی یوں ہی اک نظر میں
جو کیا کوئ اشارہ
وہ ستارہ ساز آنکھیں
مجھے کر گئيں ستارہ

;;;;;

54-ویلینٹائن ز ڈے

;;;;;

کسے خط لکھیں؟
کس کو رنگیں ستاروں
دمکتے ہوئے سرخ پھولوں
دھڑکتی ہوئی آرزوؤں بھرا کارڈ بھیجیں
بھلا کس دریچے پر اب
صبح سے پیشتر
نو شگفتہ گلابی کلی چھوڑ آئیں

کسے فون کر کے بتائیں
ہمیں اس سے کتنی محبت ہے
آغاز عہد جوانی کا معصوم نغمہ
وہ ساز غم عشق سے پھوٹتا اک ترانہ
محبت کا غمگین افسانہ ---
کس کو سنائیں؟

'محبت'
یہ اک لفظ دل کو بہت درد دینے لگا ہے
محبت ، کہ جس کے فقط ہم دریدہ دلوں نے
پرانے زمانوں میں کچھ خواب دیکھے
محبت ، کہ جس کے دیے زخم
ہم نے ہمیشہ اکیلے میں چاٹے
محبت ، کہ جس کے بیانوں سے
سارے زمانوں سے
ہم نے فقط رنج پائے

ہماری صدا ---
اس محبت کے جنگل میں
گر کر کہیں کھو گئی ہے
ہماری ہنسی ---
اس محبت کے رستے میں
اک سرد پتھر پہ
تھک ہار کر سو گئی ہے

کوئی --- یادگار محبت کے اس
سبز، چمکیلے دن میں
ہماری ہنسی کو، کسی جگمگاتی کرن سے
ذرا گدگدا کر جگائے،
اندھیرے کے جنگل سے
گم گشتہ اک خواب کو ڈھونڈ لائے
جو بیتاب آنکھیں
وہاں باغ میں ---
زرد پتّوں پہ بکھری پڑی ہیں
کوئی ان کو جا کر اٹھائے

'یہ ٹوٹا ہوا دل ---
محبت کے قابل ہے'
کوئی ہمیں بھی یہ مژدہ سنائے

;;;;;


53- چمن آراستہ ہے

;;;;;

صورتِ صبح ِ بہاراں چمن آراستہ ہے
چہرہ شاداب ہے اور پیرہن آراستہ ہے

شہر آباد ہے اک زمزمہء ہجر سے اور
گھر تری یاد سے اے جان من ! آراستہ ہے

جیسے تیار ہے آگے کوئی ہنگامہء زیست
اس طرح راہ میں باغ عدن آراستہ ہے

کوئی پیغام شب وصل ہوا کیا لائی
روح سرشار ہوئی ہے، بدن آراستہ ہے

اے غم دوست!تری آمد خوش رنگ کی خیر
تیرے ہی دم سے یہ بزم سخن آراستہ ہے

دل کے اک گوشہء خاموش میں تصویر تری
پاس اک شاخ گل یاسمن آراستہ ہے

رامش و رنگ سے چمکے ہے مرا خواب ایسے
نیند میں جیسے کوئی انجمن آراستہ ہے

اس نے سورج کی طرح ایک نظر ڈالی تھی
رشتہء نور سے اب بھی کرن آراستہ ہے

کیا کسی اور ستارے پہ قدم میں نے رکھا
کیسی پیراستہ دنیا، زمن آراستہ ہے

کیسے آئے گا زمانہ مجھے ملنے کے لیے
میرے رستے میں تو دنیائے فن آراستہ ہے

;;;;;

51-کچھ خواب کچھ نظمیں


انگشت ِسلیمانی




مرے خواب سچے تھے بچپن سے۔۔۔




گرچہ سلیماں کی انگشتری ہاتھ پر اب بنی ہے۔۔۔ ابھی نامکمل ہے۔۔۔ اور قوسِ وجدانی اب تک دکھائی نہیں دی۔۔۔ مگر یہ کسی نے بتایا تھا۔۔۔''دل میں بہت آگ۔۔۔ تن پر سدا ہجر۔۔۔ ہاتھوں میں انگشتری ہے''۔۔۔
سو دیکھا تو پایا۔۔۔ کہ ہر بات سچی تھی۔۔۔ اس کہنے والے کی۔۔۔ سب خواب سچے تھے بچپن سے میرے۔۔۔ جو سوتے میں اور جاگتے میں۔۔۔ سدا میری آنکھوں نے دیکھے۔۔ ۔ہمیشہ مرے دل نے
سوچے !۔۔۔۔ اگرچہ یہ اک عمر۔۔۔ پوری ہی جل کر ہوئی راکھ۔۔۔ لیکن وہ کچھ حرف۔۔۔ چاندی کے سونے کے پورے ہوئے ہیں۔۔۔ اگرچہ سلیماں کی انگشتری ہاتھ پر اب بنی ہے۔۔۔ ابھی نامکمل ہے۔۔۔ پھر بھی وہ سب خواب۔۔۔ ہونے کے۔۔۔ پورے ہوئے ہیں




خواب-1

بہت دھیمی دھیمی سنہری فضا، دھوپ یا دھند تھی۔۔ میرے اسکول کا سبز میدان جو سو گُنا دور تک پھیل کر، آنکھ کی حد سے اوجھل تھا۔۔ نیلی قمیضوں، سفید آنچلوں کا سمندر مرے سامنے موجزن۔۔ مارچ کی عطر آلود ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے، درختوں سے، پھولوں سے، چہروں سے اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔۔ فضا میں خوشی کی کوئی لہر تھی۔۔ سامنے اونچے اسٹیبج پر، ساری ٹیچرز کے درمیاں، سادہ رُو، سادہ دل ایک بچـّی۔۔ وہ نو سال کی عمر سے چھوٹے چہرے پہ اک بھولپن۔۔ عمر سے کچھ بڑی سوچ آنکھوں میں۔۔ دل میں بہت سخت حیرت تھی۔۔ ہاتھوں میں اک سبز کاغذ اور اُس پر لکھی کوئی تحریر، اک اجنبی سی زباں میں۔۔
وہ تحریر میری زباں سے چلی، اور موجِ‌ ہوا پر کہیں دور بہتی گئی۔۔ سنسناہٹ فضاؤں سے اک راز کہتی گئی۔۔ ساری ٹیچرز کی نرم آنکھوں میں اک فخر۔۔ ہونٹوں پہ ہلکی گلابی ہنسی تھی۔۔ مرے ہاتھ میں سبز کاغذ تھا۔۔ ہلکورے لیتی ہوا سے، سنہری مرے بال تھے۔۔ دھوپ چہرے پہ پھیلی ہوئی تھی




خواب-2

اچانک کسی نے کہا ’’ اُن کے ہاں سے کوئی لوگ آئے ہیں‘‘۔۔۔ اور پھر مرا دل دھڑک کر، بس اک ثانیے کے لیے رُک گیا تھا۔۔ طویل و عریض ایک کمرے میں بس کرسیاں ہی بھری تھیں، بہت اوندھی سیدھی۔۔ لپکتی گئی میں۔۔ ہر اک شے سے ٹکراتی، گرتی، سنبھلتی۔۔ وہ مہمان خانے کی کچھ اجنبی سی فضا اور خموشی۔۔ ذرا خوف، لیکن قیامت کا شوق اور وحشت۔۔ وہ دیوار کے بعد دیوار۔۔ دروازے کے بعد دروازہ۔۔ کوئی نہیں تھا۔۔ وہاں اُن کے ہاں کا تو کیا، اپنے ہاں کا بھی کوئی نہیں تھا۔۔
اچانک بہت خوف محسوس ہونے لگا۔۔ سردیوں کی ذرا ملگجی شام کی کپکپاہٹ میں، پاؤں کے نیچے زمیں رینگنے، سرسرانے لگی۔۔۔ گھر کدھر ہے؟ گلی کس طرف؟ میں کہاں ہوں؟ ۔۔۔ یہ اندازہ کوئی نہیں تھا۔۔۔ بہت سرد تاریک کمرے میں، دیوار کے بعد دیوار تھی۔۔۔ اور دروازہ کوئی نہیں تھا




خواب-3

کوئی اور گھر تھا۔۔ نجانے وہ آیا کہ میں اُس سے ملنے گئی تھی۔۔ درختوں کے سائے میں رستہ تھا۔۔ دو چار کچھ اجنبی سیڑھیاں تھیں۔۔ جہاں ایک دروازہ کُھلتا تھا۔۔ لوہے کا جنگلہ لگا تھا۔۔ اُس اکلوتے کمرے میں، بس زرد سی اک چٹائی بچھی تھی۔۔ بہت دور تک، سبز چمکیلی دھوپ اور خوشبو کِھلی تھی۔۔ کوئی چائے لایا۔۔ چٹائی پہ ہم آمنے سامنے اِس طرح بیٹھے، جاپانی جس طرح سے بیٹھتے ہیں۔۔ دو زانو۔۔ خموشی سے اک دوسرے کو ذرا جھینپ کر دیکھتے۔۔ چائے پیتے۔۔ بہت وقت بیتا۔۔ مرے اک جنم جتنا وہ وقت بیتا۔۔ نہ اک لفظ اُس نے کہا اور نہ میں بول پائی۔۔
ہَوا تیز تھی۔۔ اور چاروں طرف سرخ پتے بکھرتے تھے۔۔ جب سرد جنگلے سے لگ کر۔۔ بہت دکھ بھری نرم آنکھوں سے۔۔ کچھ دیر اس نے مری سمت دیکھا۔۔ پھر اک الوداعی اشارہ کیا۔۔ چار ہی سیڑھیاں تھیں۔۔ جہاں سے اتر کر۔۔ میں امکاں کے سنسان رستے پر آگے بڑھی۔۔اور پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا




خواب-4

رات کا آخری پہر تھا۔۔ چیخ کر اک ملازم نے آواز دی۔۔ مجھ کو ایسا لگا۔۔ میرے بابا کو اک سانپ نے ڈس لیا۔۔ پھر اندھیرے سے اٹھتے ہوئے شور میں۔۔ جیسے سب سے نمایاں مری چیخ تھی۔۔ دوڑ کر میں نے کھڑکی سے دیکھا۔۔ دھندلکے میں ڈوبے ہوئے راستے پر۔۔ اُنہیں چار لوگوں نے کاندھوں پر اپنے اٹھایا ہوا تھا۔۔ مگر ایک جانب سے ہاتھ اور پاؤں گھسٹتے چلے جاتے تھے۔۔ درد کی تیز آری سے، سہما ہوا میرا دل، کٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔
اجنبی سی عمارت تھی۔۔ اور پہلی منزل پہ۔۔ میں، نیم تاریک رہداریوں میں۔۔ انہیں ڈھونڈتی تھی۔۔ کسی شخص نے چھت کی جانب اشارہ کِیا۔۔ سیڑھیاں، نیم تاریک رہداریاں، فاصلے۔۔ وہ کہیں بھی نہیں تھے۔۔ کسی اور نے اگلی منزل کی جانب اشارہ کِیا۔۔۔ پھر وہی سیڑھیاں، راستے، فاصلے، گُھپ اندھیرا۔۔ لرزتے ہوئے میرے پاؤں۔۔۔ کسی نے وہاں نفی میں سر ہلا کر۔۔ بہت سرد آواز میں کچھ بتایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے گھر کی اُجڑی ہوئی چھت پہ۔۔ دھوپ اور وحشت برستی تھی۔۔ اور گرم جھونکے بگولوں کی صورت میں رقصاں۔۔ مری پیاری امّاں کے لانبے سیہ بال بکھرے ہوئے تھے۔۔ بدن خاک آلود۔۔ ہونٹوں پہ زردی تھی۔۔
دن کا کوئی آخری پہر تھا




خواب - 5

بہت تنگ ، پُر پیچ گلیاں تھیں ۔۔۔ ہلکا اندھیرا ۔۔۔ پرانے مکانوں کی بوسیدہ دیواریں ۔۔۔ سر پر جھکی آ رہی تھیں ۔۔۔عجب وحشت انگیز رستے تھے ۔۔۔ رستے سے رستہ ۔۔۔ اندھیرے سے کچھ اور اندھیرا نکلتا ہوا ۔۔۔ جانے پہچانے کچھ لوگ تھے ۔۔۔ جن کے ہمراہ میں اجنبی منزلون کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔ کسی نے کہا ” اس طرف سے گزرنا ہے ہم کو، چلو ساتھ تم بھی “ ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی دیر سے چل رہے تھے، مگروہ مقام ِطلب، اب بھی حد ِبصارت میں آیا نہیں تھا ۔۔۔ ” نہیں “ میں نے بیچارگی سے کہا ۔ ”مجھ کو دنیا کے کچھ اور بھی کام ہیں “ ۔۔۔۔۔ ہم سفر سارے رخصت ہوئے ۔۔۔ دل میں کچھ خوف اور کچھ اداسی لیے ۔۔۔ میں نے پیچھے پلٹ کر جو دیکھا، ذرا روشنی تھی ، کئی سیڑھیاں تھیں ۔۔۔ جہاں ایک دروازہ کھلتا تھا ۔۔ کمرے میں ہر شے گلابی تھی ۔ دیواریں ۔ دروازے ۔ پردے ۔ فضا ۔ پھول ۔ خوشبو۔ ہوا ۔ میری آنکھوں کی حیرت ۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے بہت دور سے گنگنا کر کہا ۔ ” اس سے اچھا ہے ، جو کچھ رکھا ہے تمہارے لیے ۔۔۔ اس سمے تو اندھیرے میں واپس پلٹنا پڑے گا ۔ بہت دور ۔ ۔ ۔ تنہائی کی سرد گلیوں میں، کچھ اور چلنا پڑے گا“








ALPHA STATE


ہمیشہ آنکھ لگتے ہی میں اپنے جسم سے باہر نکل کر بھاگتی ہوں ۔۔۔۔ خوف کے جنگل میں ۔۔ لمبی دھوپ کے صحراؤں میں ۔۔ دریاؤں میں ۔۔ دریا کے دہشت ناک گہرے ساحلوں میں ۔۔ اجنبی دیسوں میں ۔۔ ویراں شہر کی سڑکوں پہ ۔۔ پر اسرار گلیوں میں ۔۔ پرانے اور بوسیدہ مکانوں میں ۔۔ بہت سایا زدہ کمروں ۔۔ عجب آسیب والی سیڑھیوں میں ۔۔ نیلے، پیلے،لال چہروں میں ۔۔ سروں سے عاری جسموں میں ۔۔ ہر اک جانب سمٹتے پھیلتے سایوں میں ۔۔ اور سایوں سے سانپوں میں بدلتے دشمنوں میں جا نکلتی ہوں ۔۔۔۔ بہت ڈرتی ہوں ۔۔ ڈر کر چیختی ہوں ۔۔ واپس آتی ہوں ۔۔ اور اپنے جسم میں چھپ کر ہمیشہ جاگتی ہوں ۔۔۔۔۔

-------------------------------------------------
الفا سٹیٹ ۔۔ نفسیات کی رُو سے وہ ذہنی کیفیت، جس میں انسان ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے یا خود کو کسی غیر مرئی طاقت کے زیر اثر محسوس کرتا ہے۔




















دو نیم


ہمیشہ آنکھ لگتے ہی قدم اک خواب میں رکھا

وہ گہرے راز جیسا خواب، جس میں گھپ اندھیرا تھا
کہیں پر زرد رُو شب تھی ۔۔۔ کہیں کالا سویرا تھا
عجب پُر پیچ ، لمبے راستے پھیلے ہوئے ہر سُو
نگر سویا ہوا ۔۔۔ جیسے کسی نے کر دیا جادو
جہاں پاؤں سے پاؤں جوڑ کر تنہائی چلتی تھی
دھواں اٹھتا تھا باغوں سے، ہوا میں آگ جلتی تھی
کہیں تھےآشنا سے خال و خد، انجان چہروں پر
چمکتی جاگتی آنکھیں کہیں، بے جان چہروں پر
مناظر۔۔ وحشتوں، ویرانیوں، اجڑے مکانوں کے
سفر۔۔ دریاؤں کے، صحراؤں کے، گزرے زمانوں کے
ہمیشہ آنکھ لگتے ہی ۔۔۔ پریشانی نئی دیکھی
چھڑایا زندگی سے ہاتھ، پھر بھی زندگی دیکھی

کبھی گہری رسیلی نیند کا امرت نہیں چکھا

;;;;;

50-بارش میں پہاڑ کی

;;;;;

بہت تیز بارش ہے
کھڑکی کے شیشوں سے بوچھاڑ ٹکرا رہی ہے
اگر میز سے سب کتابیں ہٹا دوں تو چائے کے برتن رکھے جا سکیں گے

یہ بارش بھی کیسی عجب چیز ہے
یوں بیک وقت دل میں خوشی اور اداسی کسی اور شے سے کہاں



تم جو آؤ تو کھڑکی سے بارش کو اک ساتھ دیکھیں



ابھی تم جو آؤ تو میں تم سے پوچھوں کہ دل میں خوشی اور اداسی
. . . . .







مگر جانتی ہوں کہ تم کیا کہو گے
مری جان
اک چیز ہے تیز بارش سے بھی تند
جس سے بیک وقت ملتی ہے دل کو خوشی اور اداسی
محبت

مگر تم کہاں ہو؟
یہاں سے وہاں رابطے کا کوئ بھی وسیلہ نہیں ہے
بہت تیز بارش ہے اور شام گہری ہوئ جا رہی ہے
نجانے تم آؤ نہ آؤ
میں اب شمع دانوں میں شمعیں جلا دوں
کہ آنکھیں بجھا دوں؟

;;;;;

48- غم خوار ہو نہ ہو

;;;;;

رو لیجئے کہ پھر کوئی غم خوار ہو نہ ہو
ان آنسوؤں کا اور خریدار ہو نہ ہو

کچھ روز میں یہ زخم چراغوں سے جل بجھیں
کچھ روز میں یہ گرمئی ِ بازار ہو نہ ہو

عجلت بہت ہے آپ کو جانے کی ، جایئے
لوٹیں تو پھر یہ عشق کا آزار ہو نہ ہو

سو جائے تھک کے پچھلے پہر چشم ِ انتظار
اور کیا خبر کہ بعد میں بیدار ہو نہ ہو

دل کو بہت غرور ِ کشیدہ سری بھی ہے
پھر سامنے یہ سنگ ِ در ِ یار ہو نہ ہو

اچھا ہوا کہ آج بچا لی متاع ِ خواب
پھر جانے ایسی جرات ِ انکار ہو نہ ہو

ق

راہوں میں اس کی پھول ہمیشہ کھلے رہیں
قسمت میں اپنی گوشہء گلزار ہو نہ ہو

وہ قصر اور اس کے کلس جاوداں رہیں
ہم کو نصیب سایہء دیوار ہو نہ ہو

جب ہر روش پہ حسن ِ گل و یاسمن ملے
پھر گلستاں میں نرگس ِ بیمار ہو نہ ہو

;;;;;

47-زندگی جو کہانی بن گئی

;;;;;

جدائی گہرے غم جیسی تھی
غم تھا ۔۔۔ گہرے کالے پانیوں جیسا
بہت ہی بے دعا شب تھی
جب اس نے راستے میں ساتھ چھوڑا
راستے بھی راستوں ہی میں ۔۔۔ بھٹک کر رہ گئے
آنکھوں کے گرد و پیش جتنے بھی ستارے تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھٹک کر رہ گئے

اب ٹوٹتی جڑتی ہوئی نیندیں ہیں
اور کچھ اجنبی راتیں
مرے سب خواب
راتوں کے پرندوں کی طرح
اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے
فضا کو مرتعش کرتے ۔۔۔ اڑے جاتے ہیں
اور گہری خموشی میں ۔۔۔ بہت سہمے ہوئے دل کو
ذرا کچھ اور سہمانے لگے ہیں

مختلف ہے جاگنا فرقت میں ۔۔۔ وصلت سے
بہت ہی مختلف ہے زندگی کرنا
جدا ہو کر محبت سے
کہانی میں محبت
اصل سے بھی خوبصورت اور طرب انگیز ہوتی ہے
جدائی ۔۔۔ اصل سے بھی ہولناک














میری سب نظموں کا چہرہ
اب جدائی سے مشابہ ہو گیا ہے
زندگی ۔۔۔ کوئی کہانی بن گئی ہے

;;;;;

46- بات کی ہم نے

;;;;;

کچھ اجنبی سی صداؤں سے بات کی ہم نے
جب ایک شام ہواؤں سے بات کی ہم نے

اُنہیں بتایا پتہ آسمان والے کا
زمیں کے سارے خداؤں سے بات کی ہم نے

تھے اپنے خواب کے اک داستاں سرا ہم بھی
نگر کے خواب سراؤں سے بات کی ہم نے

سہارا کوئی نہ تھا دھوپ میں رفیقوں کا
سو ایک پیڑ کی چھاؤں سے بات کی ہم نے

دوبارہ اِس دل ِ مایوس میں اترنے کو
پلٹ کر آتی دعاؤں سے بات کی ہم نے

سفر کے بعد ضروری ہے ایک منزل بھی
چنانچہ راہنماوں سے بات کی ہم نے

جدھر ذرا سا گماں تھا تمہارے ہونے کا
ادھر سے آتی ہواؤں سے بات کی ہم نے

ہم اپنی خامشی سب کو کہاں سناتے ہیں
یہی بہت ہے خلاؤںسے بات کی ہم نے

سب اپنے طالع ِ بیدار کی تلاش میں تھے
جہاں کے بخت رساؤںسے بات کی ہم نے

یہ اہل ِعشق بھی کیا خاک سے بنے ہوں گے؟
عجیب شعلہ نواؤں سے بات کی ہم نے

;;;;;

45- رستہ ء صد چراغ تھا

;;;;;

پھول روش روش پہ تھے، رستہ ء صد چراغ تھا
کون کہے گا اِس جگہ دشت نہیں تھا، باغ تھا

اِس طرح درد سے بھرے اِس طرح ٹوٹ کر گرے
جیسے کہ چشم تھی سبو جیسے کہ دل ایاغ تھا

جب سے نگاہ ہو گئی اخترِ شام کی اسیر
شب کی نہ کچھ خبر ملی دن کا نہ کچھ سراغ تھا

ہم نے بھی خود کو حجرہء خواب میں رکھ لیا کہیں
کوئی جو کم نگاہ تھا کوئی جو کم فراغ تھا

وصل ِ زمین و آسماں دیکھ چکی تھی ایک بار
چہرہء شام ِ انتظار اس لیے باغ باغ تھا

اس میں تو کوئی شک نہیں ہم میں چمک دمک نہیں
آئنہء نگاہ ِ دوست آپ بھی داغ داغ تھا

سیرِ جہاں کے باب میں دونوں ہی سَیر چشم تھے
ایک کو صد ِ راہ دل، اک کے لیے دماغ تھا

صبح ہوئی تو سامنے چہرہء شہر ِ بے تپاک
رات ہوئی تو منتظر خانہء بے چراغ تھا

;;;;;


44-غم ہے کہاں خوشی کہاں

;;;;;

دیکھ، طلب کی راہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں
دل کی اس ایک آہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

اپنا یہاں کوئی تو ہے، تُو نہیں زندگی تو ہے
خانہء کم تباہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

سچ ہے کہ مدّتوں کے بعد راہ میں یونہی ہم ملے
پھر بھی تری نگاہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

سایہء خوابِ مختصر اب بھی جھکا ہے نیند پر
شب ہے تری پناہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

ایک نگاہ، اور پھر، کس کی مجال، دیکھتا
عشق کی بارگاہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

رنجش ِ ذات اور ہم؟ لطفِ حیات اور ہم؟
یوں بھی فقط نباہ میں،غم ہے کہاں خوشی کہاں

ہلتی ہوئی زمین پر بیٹھ کے دیکھتے رہیں
گردش ِ مہر و ماہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

اب بڑی دیر ہو چکی،اب تو یہ عمر کھو چکی
باقی دل ِ تباہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

;;;;;

43-اگر مل سکو ۔۔۔۔ تو

;;;;;

زمانوں سے کھوئی ہوئی ہجر کی منزلوں میں
مری زندگی کے پریشاں نظر راستوں میں
کہیں ایک پل کو ملو ۔ ۔ ۔ تو
مجھے تم سے یہ پوچھنا ہے
کہ دریاؤں کا رخ بدلتے سنا تھا
سمندر نے رستے بدلنا بھلا کب سے سیکھا؟
ہواؤں کے پیچاک میں
پربتوں نے الجھنا بھلا کب سے سیکھا؟

زمین اور زہرہ، عطارد، زحل، مشتری اور مریخ
سورج کے محور پہ چلتے ہیں
چلتے رہیں گے ۔ ۔ ۔ مگر
کوئی سورج بھی گدلی زمینوں کے
ٹوٹے ہوئے سرد ٹکڑوں کے محور پہ چلتا ہے
یہ سانحہ ۔۔۔ کائناتوں کی تقویم میں کب لکھا ہے؟

یہی واقعہ ہے
ہوا نے، فضا نے، زمانے نے، دنیا کے ہر تجربے نے بتایا
غلط ہے، عبث ہے، خطا ہے''
یہ خوش فہم نظروں کا دھوکا
تمنائے دل کا فریب اور پیاسے بدن کی صدا ہے
مگر کس نے سمجھا ۔۔۔ مگر کس نے مانا ؟
ازل سے یہی تو ہوا ہے
ابد تک یہی ہونے والا ہے
رستہ ہی منزل ہے
منزل بھی دراصل اک راستہ ہے
سو غم ہی خوشی ہے
خوشی میں بھی غم ہی چھپا ہے

”سفر ہے ۔۔۔ سفر ہے ۔۔۔ سفر ہے“
ازل سے ابد تک ۔۔۔ فنا سے بقا تک
مسافت میں مصروف ارض و سما نے
ستاروں نے، مہتاب نے
گرم پانی نے ۔۔۔ ٹھنڈی ہوا نے، بتایا
مگر دل ۔۔۔ جو کیوپڈ کے تیروں سے چھلنی تھے
مد ہوش تھے ۔۔۔ ان کو کب ہوش آیا؟

اگر ہوش آیا ۔۔۔ کسی رہگزر میں
تو امید اور نا امیدی کے لمبے سفر میں
ہواؤں کے اور پانیوں کے بھنور میں
بس اک پل رکے
میں سر کو اناؤں سے
پاؤں کو دنیا کے چکر سے آزاد کرنے کی خواہش میں
۔۔۔۔ پلکیں اٹھائی تھیں
غرقاب ہوتے ہوئے ۔۔۔۔
پیار ہے؟“ میں نے پوچھا تھا''
نہ“ تم نے نفی میں سر کو ہلا کر''
کسی ڈوبتے آدمی کی طرح سانس لیتے ہوئے
بے بسی سے کہا تھا ”نہیں ۔۔۔ عشق ہے ۔۔۔ عشق

کیا عشق کو بھی فنا ہے؟
مجھے بس یہی پوچھنا ہے
اگر ایک پل کو کہیں مل سکو ۔۔۔ تو

;;;;;


42-کوئی تالی بجاتا ہے

;;;;;

ہماری زندگی کو اب خوشی سے خوف آتا ہے

محل میں سینکڑوں کمرے ہیں
جن کی بیسیوں رہداریاں ہیں
بیسیوں رہداریاں ۔۔۔ پر پیچ ۔۔۔ پر اسرار
خوشیاں جن میں رنگا رنگ
چمکیلے، بھڑکتے پیرہن پہنے، گزرتی ہیں
بہت اِترا کے چلتی، جھانجھنیں جھنکاتی
اور بے وجہ اکثر کھلکھلاتی
غم زدوں کا منہ چڑاتی

غم، کسی ویران حجرے میں
بہت سنسان گوشے میں
بڑی بیچارگی سے منہ چھپاتا ہے
محل میں اب کسی کو
اس سے ملنی کی ضرورت ہی نہیں ہے
سچ یہ ہے اس کو
محل میں پاؤں رکھنے کی اجازت ہی نہیں ہے

زندگی
بوسیدہ کپڑوں میں جواں تن کو چھپائے
شہر کی پر شور سڑکوں سے گزرتی ہے
پھٹے جوتوں میں اس کے پاؤں جلتے ہیں
گلابی گال ۔۔۔ لمبی دھوپ کی یکساں تمازت سے
پگھلتے ہیں،
رفاقت کے لیے ترسی ہوئی ہے زندگی
منزل سے ہے ناآشنا
ہونے نہ ہونے کی ادھوری کشمکش میں مبتلا

غم
راستے پر زندگی کو دیکھتا ہے
دیکھتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔
آخر زندگی پلکیں اٹھاتی ہے
محبت کے لیے ترسا ہوا غم، مسکراتا ہے
محل کے اک جھروکے سے کوئی تالی بجاتا ہے

;;;;;

41- یاد نہیں کِیا تجھے















شام کو ہو کے بے قرار یاد نہیں کِیا تجھے
کب یہ ہوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے

خواب سجا کےجی لیےدل سےلگا کےجی لیے
رشتہء دردِ استوار، یاد نہیں کِیا تجھے

دانش ِخاص ہم نہیں یوں توجُنوںمیں کم نہیں
دل پہ ہے اتنا اختیار، یاد نہیں کِیا تجھے

فصل ِ بہار پھر خزاں،رنگِ بہار پھرخزاں
آئی ہے پھر سے اب بہار یاد نہیں کِیا تجھے

اشک جو ختم ہو گئےخود سے لِپٹ کےسوگئے
کوئی نہیں تھا غمگسار، یاد نہیں کِیا تجھے

کتنی کہانیاں کہیں، کتنے فسانے بُن لیے
بن گئے داستاں نگار، یاد نہیں کِیا تجھے

سخت اداس تھا نگر،سہمے ہوئے تھے بام و در
دور تھے سارے رازدار، یاد نہیں کِیا تجھے

ایک چراغ راہ میں دیر تلک جلا کِیا
بجھ گئی چشم ِ سوگوار یاد نہیں کِیا تجھے

ڈھونڈ لیا ترا بدل کہتے ہی کہتے اک غزل
سوئے ہیں اہل ِ انتظار، یاد نہیں کِیا تجھے

;;;;;

40-مگر میری آنکھیں

;;;;;

میں اُس رات بھی
زندگی کے اسی گمشدہ راستے پر چلی جا رہی تھی
مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا
مجھے اس کی آنکھیں بلاتی تھیں اکثر
خوشی کے سبھی پھول ۔۔۔ رستے میں گرتے گئے
پر مرے آنسوؤں‌ کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی تھا
میری ہتھیلی پہ اس لمس کی یاد تھی
اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا
وہی راستہ تھا کہ جس پر اندھیرا ہمیشہ سے بھاری تھا
لیکن ۔۔۔ کبھی کچھ بتا کر تو آتا نہیں حادثہ














پھر کسی نے مری خاک اٹھائی
کسی نے مرے پھول اٹھائے
کسی نے ہتھیلی پہ
اس لمس کی یاد دیکھی


کسی نے وہاں جھاڑیوں میں پڑی
میری آنکھیں نہ دیکھیں

اب اک اور ہی راستے پر چلی جا رہی ہوں
مرے آنسوؤں کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی ہے
میری ہتھیلی پہ ۔۔۔ اس لمس کی یاد ہے
اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا ہے
مگر میری آنکھیں
وہیں جھاڑیوں میں پڑی رہ گئی ہیں

;;;;;

39- نہیں بہتر تو بھی

;;;;;

کار ِدنیا میں کچھ اے دل نہیں بہتر تو بھی
کوچہء عشق سے چن لایا ہے کنکر تو بھی

جب تلک بام ِ فلک پر ہے، ستارہ توُ ہے
اور اگر ٹوٹ کے گِر جائے تو پتھر تو بھی

یہ قناعت بھی محبت کی عطا ہے ورنہ
شہر میں اور بہت، ایک گداگر تو بھی

مرے اندازے سے کچھ بڑھ کے تھی ظالم دنیا
پاؤں رکھ ، راہ ِ تمنا پہ سنبھل کر تو بھی

اجنبی لگتا ہے کیوں عالم ِ بیداری مجھے
کہیں رہتا ہے مرے خواب کے اندر تو بھی

میں اسُی موڑ پہ منزل کی طلب چھوڑ آئی
ہو لیا جب سے مرے ساتھ سفر پر تو بھی

میں کرن وار شبِ ماہ میں تجھ پر اتری
موج در موج اٹھا، بن کے سمندر تو بھی

مانگنا بھول گئی میں تو تمنا کا صلہ
دوجہاں سامنے پھیلے تھے، برابر تو بھی

;;;;;

38-کہاں گئے مرے دن

;;;;;

میں خود سے پوچھ رہی تھی،کہاں گئے مرے دن
مجھے خبر ہی نہ تھی رائگاں گئے مرے دن

گئے ہیں وحشت صحرا سمیٹنے کے لیے
کہ سوئے بزم و سر گلستان گئے مرے دن




















بہت اداس نہ ہو دل شکستگی سے مری
مرے حبیب،مرے رازداں ! گئے مرے دن

خدا کرے کوئ جوئے مراد سامنے ہو
بدوش گرد رہ کارواں گئے مرے دن

کوئ نگاہ، کوئ دل، نہ کوئ حرف سپاس
نہیں تھا کوئ بھی جب پاسباں ،گئے مرے دن

بہت سے لوگ گلی کا طواف کرتے تھے
بس اس قدر ہے مری داستاں،گئے مرے دن

;;;;;

37-ہم کسی چشم ِ فسوں ساز

;;;;;

ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں، خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں

تاب، انجام محبت کی بھلا کیا لاتے
نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں

اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے؟
وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں

اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

کٹ کے وہ پر تو ہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے
دل یہیں حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں

زندگی آج طلب گار ہے کچھ لمحوں کی
جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں

ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف
بیش قیمت ہیں، بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں

;;;;;

36-رنگ اڑا ہوا ملا

;;;;;

صبح کو بزم ِ ناز کا رنگ اڑا ہوا ملا
پھول جلے ہوئے ملے دیپ بجھا ہوا ملا

دل کا نصیب ہے اسےگرغم ِ دوست مل سکے
ایسا نگیں بھلا کسے رَہ میں پڑا ہوا ملا

ٹوٹ کے گِر چکا تھا اور ہم نے چنی تھیں کرچیاں
آج یہ آسمان پھر سر پہ تنا ہوا ملا

جب بھی فسانہء فراق شمع ِ خموش سے سنا
خوبی ِ اتفاق سے پہلے سنا ہوا ملا

شام کے ساتھ دُور تک چلتا ہوا وہ راستہ
آج تو اپنے پاؤں کے نیچے بچھا ہوا ملا

ہجر کدے میں رات کو روز کی طرح آج بھی
نیند بجھی بجھی ملی، خواب جلا ہوا ملا

کوئی اٹھا تو دھوپ سا سارے افق پہ چھا گیا
اپنے ہی سائے سے کہیں کوئی ڈرا ہوا ملا



















گھر میں اگر ہے کچھ کمی رامش و رنگ و نور کی
خانہء خواب دیکھئے کیسا سجا ہوا ملا

;;;;;

35- آنکھ میں دلبری رہی

;;;;;

بات میں تیری لطف تھا آنکھ میں دلبری رہی
شاخ ِ نہال ِ عشق یوں آج تلک ہری رہی

ہجر کی شب میں کوئی دل،لیلٰی مثال ہو گیا
خاص کسی کے واسطے قیس کی ہمسری رہی

رنگ لگا لیے کبھی، پھول سجا لیے کبھی
ذوق ِ جمال تھا نہ تھا، آئنہ پروری رہی

رنگِ حیات دیکھ کر، گل کا ثبات دیکھ کر
سہمی ہوئی تھی بوئے گل،باد ِصبا ڈری رہی

سِحرِ جمال میں رہے، ایک خیال میں رہے
شیشہء دل میں آج تک جیسے کوئی پری رہی

دل بھی حرم سے کم نہ تھا،اس میں بسا تھا اک خدا
ساتھ کہیں پہ عزتِ پیشہء آذری رہی

موسم ِ گل رہا یہاں، یا رہی خیمہ زن خزاں
خواب کی شاخسار تو یونہی ہری بھری رہی

مصحف ِ دل پہ لکھ دیا حرفِ طلائی عشق کا
لفظ گری کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں زر گری رہی

;;;;;

34-معبد

;;;;;

مرا دل ۔۔۔ شاخ پر سوکھا ہوا پتا نہیں تھا
جو ہوائے ہجر کے بس ایک جھونکے سے
بکھر جاتا
مرا دل ۔۔۔ راکھ کی چٹکی نہیں تھا
تم ہتھیلی پر بہت ہلکی سی بس اک پھونک سے
جس کو اڑا دیتے
مرا دل ۔۔۔ راستے کا سنگ پارہ تو نہیں تھا
جو تمہارے پاؤں کی ٹھوکر میں رہتا
میرا دل مہماں سرائے بھی نہیں تھا
جس میں تم مہمان بن کر آ اترتے
اور نئی منزل کی خاطر
اس کو ویراں چھوڑ جاتے

میرا دل تو ایک معبد تھا
جہاں تم کو بہت سے کوس
ننگے پاؤں سے چل کر پہنچنا تھا
پرانے طاقچوں پر
اک چراغ ِ غم جلانا تھا
الوہی خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے
اک فرقت زدہ آنسو بہانا تھا
بہت نخوت سے شانوں پر اٹھا ۔۔۔ یہ سر
جھکانا تھا










مرا دل ایک معبد تھا
اگر آنا تھا تم کو
ترک ِ ہستی
ترک ِ دنیا کر کے آنا تھا

;;;;;

34-رنج و ملال سے جدا

;;;;;

کلفتِ جاں سے دور دور، رنج و ملال سے جدا
ہم نے تجھے رکھا ہرایک صورتِ حال سے جدا

آج نگاہ اور تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اور نگاہِ سرد میں
ایک جواب اور تھا ، میرے سوال سے جدا

شام اداس،پھول زرد، شمع خموش، دل حزیں
کوئی رہا تھا تھوڑی دیر بزم ِ جمال سے جدا

ہم میں بھی کوئی رنگ ہو ذوق ِنظر کے ساتھ ساتھ
تم میں بھی کوئی بات ہو شوق ِ وصال سے جدا

تم کو نہ کچھ خبر ہوئی آمد و رفتِ ہجر کی
خانہء عشق میں رہے ایسے کمال سے جدا

کیسی عجب ہَوا چلی، ایک ہوئے ہیں باغ و دشت
گل سے خفا ہے بوئے گل، رم ہے غزال سے جدا

دھند میں اور دھوپ میں، نیند میں اور خواب میں
ہم تھے،مثیل سے الگ! ہم تھے، مثال سے جدا

;;;;;

چند گِلے بُھلا دیے چند سے -33

;;;;;

چند گِلے بُھلا دیے چند سے درگزر کِیا
قصہء غم طویل تھا ، جان کے مختصر کِیا

جھوٹ نہیں تھا عشق بھی،زیست بھی تھی تجھے عزیز
میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کِیا

جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں
میں نے تو ریت اوڑھ لی، میں نے تو کم سفر کِیا

تیری نگاہِ ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ
شوق تھا کچھ اگر رہا،رنج تھا کچھ اگر کِیا

ٹوٹ کے پھر سے جُڑ گیا خواب کا زرد سلسلہ
میں نے ترے فراق کو نیند میں ہی بسر کِیا

راہ بہت طویل تھی راہ میں اک فصیل تھی
اُس کو بھی مختصر کِیا ،اِس میں بھی ایک در کِیا

ہم تو عجیب لوگ تھے ہم کو ہزار روگ تھے
خوب کِیا جو آپ نے غیر کو ہم سفر کِیا

;;;;;;

32-واقعہ تو نہیں ہم

;;;;;

نہیں ۔۔۔ واقعہ تو نہیں ہم
نجانے گئی شب کے ویران ماتھے پہ
کس نے ہمیں لکھ دیا














ہم تو خواہش کے کہرے میں لپٹے ہوئے
مخملیں گھاس پر
برف سی چاندنی کے تلے
اک ذرا سو گئے تھے

ہمیں کیا خبر ۔۔۔ ہم کو دنیا نے آواز دی تھی
اگر کوئی آواز آتی تو ۔۔۔۔
نیند اتنی گہری کہاں تھی

ہمیں کیا خبر ۔۔۔ ہم کو تم نے پکارا تھا
تم نے پکارا جو ہوتا
تو ہم کوئی پاتال میں تو نہ تھے

ہم تو خوابوں کے گلزار میں تھے
وہیں سبزہ زاروں میں
مہکے ستاروں کے نیچے
دمکتے گلابوں میں ۔۔۔ شبنم کے مانند
کچھ دیر کو کھو گئے تھے

نہیں ۔۔۔ گمشدہ تو نہیں ہم
نجانے یہ گہرے، گھنے ہجر کی زرد ساعت پہ
کس نے ہمیں ۔۔۔۔۔۔

;;;;;

31-مری خواب گاہ میں

;;;;;

مجھے وہم تھا
مری خواب گاہ میں کوئی شے ہے چھپی ہوئی
کوئی سبز، سرخ لکیر سی
جو نظر اٹھاؤں ۔۔۔ تو ایک چیز حقیر سی
جو نظر بچے ۔۔۔ تو عجب طرح سے وہ جی اٹھے
کبھی رینگتی ہوئی فرش کے تن ِزرد پر
کبھی کانپتی ہوئی میرے بستر ِ زرد پر
جو سرہانےآ کے سمٹ گئی
تو وہیں سے نیند اچٹ گئی
کسی شب کو خواب کے پاس سے جو گزر گئی
تو وہاں سے خواب ہی کٹ گیا
کبھی سچ کی طرح مری نگاہ پہ کھل گئی
کبھی واہمہ سا مری نظر سے لپٹ گیا

ابھی پائیدان کے پاس تھی ۔۔۔ ابھی در میں ہے
کبھی خوف سا رگ و پے میں میرے اتر گیا
کبھی سنسنی سی کمر میں ہے
نہ میں جاگ پاؤں ۔۔۔ نہ سو سکوں
اور اسی سیاہ خیال میں
نہ ہنسوں ۔۔۔ نہ کھل کے میں رو سکوں
کہ وہ جھولتی ہوئی جھالروں سے چمٹ کے چھت سے لٹک گئی
کہ وہ چھت سے رینگتی رینگتی ۔ ۔ ۔ ۔
جو مرے بدن پہ چھلک گئی؟
اسی ڈر سے آنکھ دھڑک گئی

مرے گھر میں کوئی نہ آئے گا
کہ میں ہاتھ تھام کے تختِ جان سے اتر سکوں
مرے دل میں کوئی نہ آئے گا
کہ میں دل کی بات ہی کر سکوں
وہ سکوت ہے
کہ نہ جی سکوں ۔۔۔ نہ میں مر سکوں















کبھی وہم تھا ۔۔۔
مگر اب گماں ہے یقین پر
مری خواب گاہ میں سانپ ہے
میں رکھوں نہ پاؤں زمین پر

;;;;;

30-ختم ہوئی کاوش ِدل

;;;;;

منزل ِخواب لٹی، ختم ہوئی کاوش ِدل
اب تو بے چارگی ِجسم ہے اور کاہش ِدل

برف سی جمنے لگی معبد ِدل پر آخر
سرد ہونے لگا آتش کدۂ خواہش ِدل

پاؤں کے آبلے سہلانے کی فرصت کس کو
چین لینے نہیں دیتی ہے یہاں سوزش ِدل

اک فلک زاد کے چہرے پہ نظر ٹھہری ہے
لے کے جاتی ہے کہاں دیکھیے اب گردش ِدل

کیا کریں، اس کے لیے تن کو لگا لیں کوئی روگ؟
سخت انجان ہے، کرتا ہی نہیں پرسش ِدل

چشم حیران جدا، عقل سراسیمہ الگ
اور بڑھتی چلی جاتی ہے ادھر سازش ِدل

آنکھ میں بھیگی ہوئی شام کا منظر ہی رہا
کرۂ خواب پہ ہوتی ہی رہی بارش ِدل

ہم بھی خاموش گزر جائیں گے اوروں کی طرح
لے بھی آئی تیرے کوچے میں اگر لغزش ِدل

سرد کرتا ہے لہو، تیرے زمستاں کا خیال
منجمد ہونے نہیں دیتی مگر تابش ِدل

کوئی آئے تو چراغاں ہو سبھی راستوں پر
کوئی ٹھہرے تو سجے بزم گہ ِ خواہش ِدل

لب اگر بند رہے، آنکھ اگر ساکت تھی
تو جو آیا، ہمیں محسوس ہوئی جنبش ِدل

رونق ِ بزم سے کیا ہاتھ اٹھانا تھا کہ پھر
رنگ ِدنیا سے سوا ہو گئی کچھ رامش ِدل

راکھ کا ڈھیر ہی پاؤ گے پلٹ آنے پر
گر اسی طرح جلائے گی ہمیں آتش ِدل

شومئی بخت سہی، زندگی کچھ سخت سہی
پھر بھی قائم ہے ابھی حرمت ِجاں، نازش ِدل














نہ سہی گر نہیں ملتی کوئی آسائش ِدل
ہم تو اس شخص سے کرتے نہیں فرمائش ِدل

اس کی یادوں کے گلاب، اس کی تمنا کا چراغ
ایک مدت سے یہ ہے صورت ِآرائش ِدل

ایک مضراب سے بج اٹھتا ہے سازینۂ جاں
ایک تصویر سے ہو جاتی ہے زیبائش ِدل

توُ کہاں چھایا ہے، پھیلا ہے زمانہ کتنا
اِس نظر سے کبھی کی ہی نہیں پیمائش ِدل

اسُ سے کیا شکوۂ محرومی ِیک لطف ِبدن
جس کو معلوم نہیں معنی ِآسایش ِدل

اتنے وقت،اتنےعناصرسے بنا ہے یہ جہاں
کوئی بتلائے کہ کیونکر ہوئی پیدائش ِدل

راحت ِجاں سے گئے، اس کے بھی امکاں سے گئے
وہ جو ہوتی تھی کسی وقت میں فہمائش ِدل

یہ بجا ہے، نظر انداز کریں جسم کی بات
کوئی ٹالے گا کہاں تک بھلا فرمائش ِدل؟

;;;;;

بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی -29

;;;;;


بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی -- کوئی چال وقت ہی چل گیا
نہ میں با خبر، نہ میں با کمال
میں خوش گماں ۔۔ تھی اسی خیال سے شادماں
کہ مرا ستارہ بھی گردشوں سے نکل گیا
مگرایک رات ہوا چلی، تو ہوا کی سانس میں آگ تھی
یہ گماں ہوا کہ لباس پرکوئی شمع جیسے الٹ گئی
مری چھت سے برق لپٹ گئی
مری نیند ایسے جھلس گئی ۔۔ مرا خواب اس طرح جل گیا
نہ وہ آنکھ میں رہی روشنی ۔۔ نہ وجود میں رہی زندگی
یہ بدن جو آج تپیدہ ہے ۔۔ مری روح اس میں رمیدہ ہے
مرے انگ انگ میں درد ہے
یہی چہرہ جو کبھی سرخ تھا ۔۔ ابھی زرد ہے
مرا رنگ کیسے بدل گیا؟
نہیں دن سے کوئی بھی آس اب
ہے اگر نصیب میں پیاس اب
کسی ابر پارے کی چاہ میں ۔۔ کبھی سر اٹھا کے جو دیکھ لوں
تو وہ گرم بوند ٹپکتی ہے ۔۔ کہ یہ جان تن میں تپکتی ہے
مرا آسمان پگھل گیا
نہیں غم نہیں ۔۔ کہ ہے میرے ماتھے پہ غم لکھا
مگر اس سے بڑھ کے ستم ہوا
کہ جو حرف مصحفِ دل پہ لکھا تھا عشق نے ۔۔ وہی مِٹ گیا
کسی اختیار کا پھیلتا ہوا ہاتھ تھا ۔۔ کہ سمٹ گیا
کوئی اعتبار کا تار تھا کہ جو کٹ گیا
وہ جو اسم تھا کبھی وردِ جاں ۔۔ وہ الٹ گیا
کوئی نقش تھا ۔۔ کسی اور نقش میں ڈھل گیا

;;;;;


دل میں چھپی ہوئی تھی جو -28

;;;;;

دل میں چھپی ہوئی تھی جو، زینتِ بام ہو گئی
آنکھ اٹھی تو ساری بات بر سرِ عام ہو گئی

ایک رفیق تھا سو دل اب ترا دوست ہو گیا
جو بھی متاع ِ خواب تھی سب ترے نام ہو گئی

دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصف نہار پر کبھی
عرصہء زندگی میں بس صبح سے شام ہو گئی

خواہشِ ِ ناتمام کو پیش ِ زمانہ جب کِیا
رم ہی کبھی کِیا نہ تھا، اِس طرح رام ہو گئی

شام کے راستے پہ تھا ایک خیال ہم رکاب
پھر تو ہَوا بھی ساتھ ساتھ محو ِ خرام ہو گئی

کیسی اڑان کی ہمیں تجھ سے امید تھی مگر
زندگی! تُو بھی طالبِ دانہ و دام ہو گئی

کلفت ِ جاں سے ایک ہی ساعتِ خوش بچائی تھی
اور وہ نذر ِ گردش ِ ساغر و جام ہو گئی

میں نہ جھپک سکی پلک مجھ پہ جھکا تھا جب فلک
حد سے بڑھی تو خامشی، خود ہی کلام ہو گئی

شہر میں ان کے نام کے چند چراغ جل اٹھے
راہروان ِ شوق کو دشت میں شام ہو گئی

;;;;;

27-اک شمع ِکمالِ

;;;;;

اک شمع ِکمالِ سر خوشی ہوں
اور اپنی خوشی سے جل رہی ہوں



ہوں نیند کی کیفیت میں گویا
گر بات کرو تو جاگتی ہوں

رستے میں پڑی ہوں روز و شب کے
کس شاخ سے ٹوٹ کر گری ہوں

پتھر ہی بنا لیا ہے خود کو
پتھر کے تلے اگر دبی ہوں

کیا آگ مجھے جلا رہی ہے
کس خاک کی مشت سے بنی ہوں





آندھی کی لپیٹ میں بدن ہے
اور روح میں اپنی گونجتی ہوں

ہوں موت سے مستعار شاید
ہونے کو تو ایک زندگی ہوں

معصوم، فرشتے اور پیمبر
اور میں تو فقط اک آدمی ہوں

تنہائی، خداؤں کا مقدر
میں تیرے وصال سے بڑی ہوں

;;;;;

26- در باز کریں کیا

;;;;;

دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا
منزل ہی نہیں جب،سفرآغازکریں کیا

اُڑتے ہوئے جاتے تھے ستاروں سے بھی آگے
دل ٹوٹ کے گر جائے تو پرواز کریں کیا

کیا شہرِ مراتب میں ہوں مہمان کسی کے
آئے جو کوئی، دعوتِ شیراز کریں کیا

آنکھوں سے کسی خواب کی دوری پہ ہے دنیا
اس دشتِ فراموشی میں آواز کریں کیا

جب اتنی کفایت سے ملے تیری توجہ
کیا خرچ کریں اور پس انداز کریں کیا

تجھ سا جو کوئی ہو تو اسے ڈھونڈنے نکلیں
ایسا نہ ہو کوئی تو تگ و تاز کریں کیا

ناکام تمناؤں پہ محجوب سا اک دل
سرمایہء جاں یہ ہے تو پھر ناز کریں کیا

تجھ ایسا ہو قاتل تو کوئی جاں سے نہ کیوں جائے
ہوں لاکھ مسیحا بھی تو اعجاز کریں کیا

افشائے محبت بھی قیامت سے نہیں کم
اب فاش تری چشم کا ہر راز کریں کیا

;;;;;

وطن کے لئے -25

;;;;;

وطن کے لئے نظم لکھنے سے پہلے
قلم ، حرف کی بارگہ میں
بہت شرمسار و زبوں ہے
قلم سر نگوں ہے
قلم کیسے لکھے

وطن! تو مری ماں کا آنچل جو ہوتا
تو میں تجھ کو شعلوں میں گِھرتے ہوئے دیکھ کر۔۔ کانپ اٹھتی
زباں پر مری۔۔۔ الاماں۔۔۔ اور آنکھوں میں اشکوں کا طوفان ہوتا

وطن! تو مرا شیر دل بھائی ہوتا۔۔۔ تو
تیرے لہو کے فقط ایک قطرے کے بدلے
میں اپنے بدن کا یہ سارا لہو نذر کرتی
شب و روز۔۔ تیری جوانی
تری زندگی کی دعاؤں میں مصروف رہتی

وطن! تو مرا خواب جیسا وہ محبوب ہوتا
کہ جس کی فقط دید ہی۔۔ میرے جیون کی برنائی ہے
میں ترے ہجر میں۔۔ ر1ت بھر جاگتی۔۔ عمر بھر جاگتی
عمر بھر گیت لکھتی

وطن! تو جو معصوم لختِ جگر میرا ہوتا
تو۔۔ تیری اداؤں سے میں ٹوٹ کر پیار کرتی
بلائیں تری۔۔ ساری اپنے لیے مانگ لاتی
ترے پاؤں کو لگنے والی سبھی ٹھوکروں میں
میں اپنا محبت بھرا دل بچھاتی

وطن! تو اگر میرے بابا سے میراث میں ملنے والی
زمیں کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا
کہ جس کے لیے میرا بھائی
مرے بھائی کے خوں کا پیاسا ہوا ہے
تو میں اپنی جاں کا کوئی حصہ اور جرعہء خوں تجھے پیش کرتی

میں اپنے بدن پر کوئی وار۔۔ دل پر کوئی زخم سہتی
تو پھر شعر کہتی

قلم کیسے لکھے
یہ آدھی صدی سے زیادہ پہ پھیلے بہانے
یہ خود غرضیوں کے فسانے؟

قلم۔۔۔ مہرباں شاعروں کا
قلم۔۔۔ غمگسار عاشقوں کا
قلم۔۔۔ آسمانی صحیفوں کو مرقوم کرنے کا داعی
قلم۔۔۔ نوعِ انساں کی تاریخ کا عینی شاہد
قلم۔۔۔ یہ مری عمر بھر کی کمائی

ازل سے ابد تک۔۔ جو راز آشنا ہے
بہت سرخرو اور شعلہ نوا ہے
قلم لکھ رہا ہے

کہ میرے وطن
تو ہی پُرکھوں سے میراث میں ملنے والی زمیں ہے
تو ہی سر پہ پھیلا ہوا آسماں ہے
تو ہی ماں کی گود اور آنچل
تو میرا محافظ، مرا شیر دل بھائی
تو میرا محبوب، وہ خواب زادہ
تو ہی میرا معصوم لختِ جگر ہے
تو ہی میری پہچان اور شان ہے
دل کی ٹھنڈک ہے
نورِ نظر ہے

;;;;;

24-نروان












;;;;;

خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا
ہر اک چیز غم ہے
حیات ایک نامختتم رنج کا سلسلہ ہے
یہاں خواہش ِزر کا
نام آوری کی تمنا کا حاصل
محبت کا، نفرت کا انجام ۔۔۔ الم ہے

خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا
ہر اک شے گزر جانے والی ہے
پھل، پھول، سبزہ، سمندر، پہاڑ اور میداں
بہارو خزاں، ابروباراں، زمستاں
ہر اک جاندار اور بے جاں
مکاں، لامکاں ۔۔۔ سب دھواں
سب گماں ہے“

خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا
ہر اک شے عدم ہے
یہ شمس و قمر ۔۔۔ کہکشان و نجوم اور شام وسَحر
اور مہ و سال ۔۔۔ اور وقت
ہر شے کا انجام ۔۔۔ آخر فنا ہے
زمینوں، زمانوں سے آگے خلا ہے
ہر اک چیز زندہ ۔۔۔ مگر ہر قدم ۔۔۔ موت کی ہم قدم ہے

جو ہر شے عدم ہے
تو کس بات کا تجھ کو غم ہے
جو ہر شے گزر جانے والی ہے ۔۔۔ آخر عدم ہے
تو پھر کیسا غم ہے
کہ جینے میں بھی موت دیکھی
جو راحت میں غم کا مزہ تو نے چکھا

خدا نے یہ پوچھا
جب اس نے مرے آبلے جیسے دُکھتے ہوئے دل پہ
معجز نما ہاتھ رکھا

------------------------------------------

سروم دکھم ۔۔۔ سروم اتیم ۔۔۔ سروم شنیم
( مہاتما بدھ)


;;;;;

دھند گہری ہو رہی -23

;;;;;

اک کھیل ۔۔۔ جس کے سب کے سب کردار اصلی ہیں
یہ میں اور تم ۔۔۔ یہی وہ ۔۔۔ اور سب
جن کو نہیں معلوم ۔۔۔۔ کیا اصلی ہے کیا نقلی
اک ایسا کھیل ۔۔۔ جس کو لکھنے والے نے لکھا ہے
نیند کے اور جاگنے کے درمیاں
اس کھیل میں وقفے بھی آتے ہیں
برابر زندگی کے ۔۔۔ ایک وقفہ ہے
مگر وقفے میں بھی یہ کھیل جاری ہے
ہدایت کار نے اس ضمن میں کوئی ہدایت دی تو ہو گی
ہاں ۔۔۔ مگر پروا ہدایت کار کی کس کو ؟
سو اب اُس وقت سے ۔۔۔ اِس وقت تک ۔۔۔ اور آنے والے وقت تک
یہ کھیل جاری ہے
بہت بے چین ہو ؟
اچھا تو لو ۔۔۔ اب پردہ اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔ مگر منظر ؟
چلو اب فرض کر لو کوئی ۔۔۔۔

( منظر )

میں: __ اگرچہ ڈھونڈنے نکلے تو ہیں پر رات کالی ہے ذرا ۔۔۔۔
تم: ___ اب صدا دینی پڑے گی ۔۔۔۔
وہ: ___ صدا خود روشنی ہے جبکہ ہم دشتِ طلب میں ہیں ۔۔۔
صدا دینی پڑے گی
سب: __ کوئی ہے ؟ کوئی ہے ؟ کوئی اگر ہے تو پکارے


میں: ___ خموشی ؟ کیا انوکھی خامشی ہے ۔۔۔۔
تم:___ درختوں سے اُبھرتی ۔۔۔ راستوں ہر پھیلتی یہ خامشی ۔۔۔
وہ:___ کس قدر تنہا درختوں کے یہ جھنڈ ۔۔۔ آنکھوں کے آگے پھیلتے یہ راستے
صحرا میں کب ہوتے ہیں ایسے جھنڈ ۔۔۔ ایسے راستے ؟
سب: ___ ہے کوئی صحرا میں یا ۔۔۔۔ ؟

میں:___ دیکھنا وہ چاند نکلا ہے ۔۔۔۔ ذرا دیکھو تو ۔۔۔
تم: ___ صحرا کی چاندی پر جو بکھرے چاند کا سونا ۔
تو کیسا رنگ بنتا ھےانوکھا ۔
میں:___ مگر دل پر اداسی چھا رہی ہے ، خوف اب باقی نہیں ۔۔
ان دیکھی کا اور ان سنی کا ۔۔۔
تم: ___ تو کیا وہ ان کہی کا خوف بھی ؟
میں: ___ ان کہی ؟ میں نے کبھی سوچا نہیں
وہ: ___ ان کہی میں خوف بھی، امکان بھی پوشیدہ رہتا ہے ۔۔ مگر امکان میں
پوشیدگی ہے ۔۔۔ خوف بھی ہے ۔۔۔ ان کہی بھی
سب:__ کہیں پوشیدہ ہے کوئی یہاں ؟


میں:__ جب یہ پہلی بار چاہا تھا کہ نکلوں اس سفر پر ۔۔۔ سب نے روکا تھا
مگر کوئی نہ تھا ۔۔۔ جو بڑھ کے کہہ دیتا کہ مت جاؤ ۔۔۔ رکو میرے لیے
تم: __ میں نے چاہا تھا مگر پھر ۔۔۔ میرا اپنا بھی ارادہ اس سفر کا ہو گیا ۔۔۔
اور ڈھونڈنا کیسا ؟ مجھے دراصل تو مقصود تھی تھوڑی رفاقت ۔۔۔
میں: __ اگر تم نے کہا ہوتا تو شاید ۔۔۔
وہ: ___ مگر کہنا، نہ کہنا ۔۔۔ چاہنا، کم چاہنا ۔۔ کب اختیاری ہے
میں: __ ساری بات اُس سے مختلف تھی، تم نے جو سمجھی مگر ۔۔۔
تم: __ بات جو تم کہہ نہ پائیں آج تک ۔۔۔ اب کہہ بھی دو تو کیا ؟ چلو ۔۔۔
سب: __ ہے کوئی اس جھنڈ سے آگے ۔۔ کوئی ہے ؟


میں:___ یہ کیسے راستوں سے راستے ۔۔۔ نکلے چلے آتے ہیں ۔۔۔
تم:___ الفت کہاں ہوتی ہے گوشہ گیر ایسی ۔۔۔ جیسی تم نے کی ۔۔۔
خبر ہونے نہ دی مجھ کو بھی تم نے ۔۔۔۔
میں: __ مجھے خود بھی خبر کب تھی کہ ایسا واقعہ ۔۔۔۔۔
وہ:___ خیر ، الفت تو خبر ہے خود ۔۔یہی تو واقعہ ہے ۔۔ حادثہ ہے ۔۔ راستہ ہے
سب: ___ کوئی رستوں سے آگے ہے ؟ کوئی ہے ؟؟


میں:___ نجانے رات کتنی جا چکی ہے ۔۔۔
تم: ___ اگر ہم ساتھ ہیں، پھر فکر کیسی ؟
میں:___ مگر ہم ساتھ کب ہیں ؟ ہم تو اس دشتِ طلب میں، اپنی اپنی ذات
پیچھے چھوڑ کر ۔۔۔ نکلے ہیں اُس کو ڈھونڈنے ۔۔۔
وہ:___ ڈھونڈنے والے تو راتوں کو نہیں سوتے ۔۔ وہ اپنی ذات کے
غم میں نہیں روتے کبھی
میں: ___ سوچتی تھی ۔۔۔ میں بھی اپنا خواب دیکھوں ۔۔۔
تم:___ محبت، خواب کی ڈالی سے ٹوٹا پھول تو ہے ۔۔۔
وہ: ___ محبت خار بھی ہے ۔۔۔ دل کی گہرائی میں ٹوٹی ایک نوکِ خار
سب: ___ باطن میں گہری رات کے، کوئی تو ہو گا


میں:___ سفر باقی ہے کتنا ؟ پاؤں اب شل ہو چکے ہیں ۔۔۔
تم: ____ سہارا چاہئے تو ہاتھ حاضر ہے ۔۔۔ یہی وہ ہاتھ ہے
جو اس سے پہلے بھی بڑھا تھا ۔۔۔
میں: ___ سہارا ؟ یاد ہے شرطِ سفر کیا تھی بھلا ؟
تم: ___ رات باقی ہے ۔۔۔ سفر لمبا ۔۔۔ رفاقت کی ضرورت تو رہے گی
وہ: ___ مگر جو ڈھونڈنے نکلیں ۔۔ رفاقت کے تو قائل ہی نہیں ہوتے ۔۔۔
یہ تنہائی مقدر لوگ ۔۔۔۔
میں:___ پیاسی ہوں ۔۔۔ کیا پانی ملے گا ؟
تم:___ محبت آدمی کو اس طرح سیراب کر دیتی ہے ۔۔۔
پھر مشروب کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔
وہ:___ پیاس بھی تو ہے محبت ۔۔۔ پیاس ۔۔۔ گہری پیاس
سب:___ کوئی رفاقت کی حدوں کے پار ہے ؟


میں:___ صبح کے آثار ہیں ۔۔ اور دھند اتری آ رہی ہے ۔۔
تم: ___ افق سے راستوں پر اور درختوں پر ۔۔۔ فضا سے اپنے چہروں پر
یہ پلکی دھند ۔۔۔
میں:__ اور پھر یہ دشتِ ہول ۔۔۔ اور یہ دل کی ویرانی ۔۔۔ یہ دل ۔۔۔
تم: ___ ساتھ کی راحت ؟
میں: ___ جانے جھوٹ کیا ہے ۔۔۔ سچ ہے کیا ؟
تم:___ ہم ہی سچ ہیں
وہ:___ نہیں ہے جھوٹ کوئی ، ہاں مگر کوتاہ نظری ۔۔۔
سچ نہیں کچھ، بس ارادہ اور طاقت
سب:___ کوئی ہے، جھوٹ میں یا سچ میں پوشیدہ ؟ پکارے ۔۔۔۔


میں: ___ سفر کتنا ہے ؟ کتنا دشت باقی ہے ؟ بتاؤ
تم:___ نہیں اندازہ کچھ اتنا ۔۔ مگر لگتا ہے ۔۔۔ عمروں ہی سے ہم
اس دشت میں ہیں ۔۔ اور صدیوں سے سفر میں ہیں ۔۔۔
کبھی گر ناپ سکتے رات کو ۔۔۔ اور دشت کو ۔۔۔ اور اس سفر کو ۔۔۔
وہ: ___ سفر ناپا نہیں کرتے ۔۔۔ تلاش آغاز کرتے ہیں، تو پھر انجام کا سوچا
نہیں کرتے ۔۔۔ صدا کرتے ہیں، بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔ ہر اک موڑ پر
ٹھہرا نہیں کرتے ۔۔ چلو آواز دیتے ہیں ۔۔۔ چلو آواز دو ۔۔۔
سب: ___ کوئی ہے ؟ کوئی یہاں پر ہے ؟ کہیں پر کوئی ہے ؟ ہے تو پکارے ۔۔۔
کوئی تو ھو گا ۔۔۔۔ کہیں پر کوئی تو ہو گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔

جواب آتا نہیں ہے
باز گشت آتی ہے
اور اب دھند گہری ہو رہی ہے

( پردہ گرتا ہے )

;;;;;

دشت میں اک طلسم آب -22

;;;;;

دشت میں اک طلسم آب کے ساتھ
دور تک ہم گئے سراب کے ساتھ

پھر خزاں آئ اور خزاں کے بعد
خار کھلنے لگے گلاب کے ساتھ

رات بھر ٹوٹتی ہوئ نیندیں
جڑ گئیں سحر ماہتاب کے ساتھ

ہم سدا کی بجھے ہوئے تھے
وہ تھا پہلی سی آب و تاب کے ساتھ

چھوٹی عمروں کی پہلی پہلی بات
کچھ تکلف سے کچھ حجاب کے ساتھ

اور پھر یہ نگاہ خیرہ بھی
ڈوب جائے گی آفتاب کے ساتھ

رات کی طشتری میں رکھی ہیں
میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ

یہ فقط رسم ہی نہیں اے دوست
دل بھی شامل ہے انتساب کے ساتھ

;;;;;

جیسے یہ درد سے -21

;;;;;

جیسے یہ درد سے بنی ہوئ تھی
شام اس طرح کاسنی ہوئ تھی

رات کی اپنی روشنی تھی بہت
دھوپ کے جیسی چاندنی ہوئ تھی

کوئ ذی روح دور دور نہ تھا
اور خموشی بہت گھنی ہوئ تھی

کون تھا بن میں بھیگنے والا
چادر ابر کیوں تنی ہوئ تھی

گونجتی تھی ہر ایک سانس کے ساتھ
اک تمنا جو راگنی ہوئ تھی

ایک مدت کے انتظار کے بعد
اس دریچے میں روشنی ہوئ تھی



















آئنہ کیوں سیاہ لگتا تھا؟
کیا اندھیرے سے میں بنی ہوئ تھی

;;;;;

20-آشوب

;;;;;

کیا آہ بھرے کوئ
جب آہ نہیں جاتی
دل سے بھی ذرا گہری
اور عرش سے کچھ اونچی

کیا نظم لکھے کوئ
جب خواب کی قیمت میں
آدرش کی صورت میں
کشکول گدائ کا
شاعر کو دیا جائے
اور روک لیا جاۓ
جب شعر اترنے سے
بادل سے ذرا اوپر
تاروں سے ذرا نیچے

کیا خاک لکھے کوئ
جب خاک کے میداں پر
انگلی کو ہلانے سے
طوفان نہیں اٹھتا
جب شاخ پہ امکاں کی
اس دشت تمنا میں
اک پھول نہیں کھلتا

رہوار نہیں رکتے
موہوم سی منزل پر
آنکھوں کے اشارے سے
اور نور کی بوندوں کی
بوچھاڑ نہیں ہوتی
اک نیلے ستارے سے

جب دل کے بلاوے پر
اس جھیل کنارے پر
پیغام نہیں آتا
اک دور کا باشندہ
اک خواب کا شہزادہ
گلفام، نہیں آتا

بستی میں کوئ عورت
راتوں کو نہیں سوتی
جاگی ہوئ عورت کی
سوئ ہوئ قسمت پر
جب کوئ بھی دیوانہ
بے چین نہیں ہوتا
دہلیز کے پتھر سے
ٹکرا کے جبیں اپنی
اک شخص نہیں روتا

جب نیند کے شیدائ
خوابوں کو ترستے ہیں
اور دیکھنے کے عادی
بینائ سے ڈرتے ہیں
رہ رہ کے اندھیرے سے
آنکھوں میں اترتے ہیں

آنکھوں کے اجالوں سے
ان پھول سے بچوں سے
کہہ دو کہ نہ اب ننگے
پاؤں سے چلیں گھر میں
اس فرش پہ مٹی کے
اب گھاس نہیں اگتی
اب سانپ نکلتے ہیں
دیوار سے اور در سے

اب نور کی بوندوں سے
مہکی ہوئ مٹی میں
انمول اجالے کے
وہ پھول نہیں کھلتے
اب جھیل کنارے پر
بچھڑے بھی نہیں ملتے













بستی میں کوئ عورت
راتوں کو نہیں سوتی
اور جاگنے والوں سے
اب نظم نہیں ہوتی

کیا نظم لکھے کوئ
جب جاگنے سونے میں
پا لینے میں،کھونے میں
جب بات کے ہونے میں
اور بات نہ ہونے میں
کچھ فرق نہ رہ جاۓ
کیا بات کرے کوئ

;;;;;

19-زمیں کیوں بنائی

;;;;;

فلک کیوں بنایا؟
ستاروں سے آگے ستارے بنائے
ستاروں سے پھر کہکشائیں سجائیں
بہت فاصلے ۔۔۔
فاصلوں سے بھی آگے ۔۔۔ بہت فاصلے
چار سمتیں، کبھی چھ، کبھی سات سمتیں بنائیں
کبھی نور سے نور پیدا کیا اور کبھی تیرگی، تیرگی سے
اندھیرے کا آخر اجالا ۔۔۔ اجلاے کا انجام اندھیرا
شہاب اور ثاقب
کہیں آگ ہی آگ ۔۔۔ آگے
کہیں برف ہی برف ۔۔۔ پیچھے
حقیقت میں کوئی نہ آگے ۔۔۔ نہ پیچھے
فقط شعبدے
بس کشش اور ثقل اور ایتھر

چلو یہ اگر بن گیا تھا ۔۔۔ بہت تھا
زمیں کیوں بنائی؟
فضائیں، ہوائیں بنائیں
پہاڑ اور سمندر بنائے
یہ پھل پھول اور کھیتیاں اور جنگل
ہزاروں طرح کے پرندے
کروڑوں طرح کے جناور
یہ پانی میں چھوٹی بڑی مچھلیاں
تاکہ چھوٹی کو کھائے بڑی
اور طاقت میں کم کو زیادہ

زمیں پر یہ انساں
یہ حیوان ِ ناطق ۔۔۔ درندوں کا سردار
دو پاؤں پر اک بدن کو اٹھانے پہ نازاں
اور اس کے کئی روپ، بہروپ
سائے ہی سائے ۔۔۔ کبھی دھوپ ہی دھوپ
رشتوں کی زنجیر ۔۔۔ جس مں ہیں مہرو مروت کی
ظلم وعداوت کی کڑیاں
یہ رشتوں کی زنجیر ۔۔۔ جس میں بندھی
ابن ِ آدم کی اور بنت ِحوا کی تقدیر
تقدیر ۔۔۔ جس سے ہیں سب
سخت بیزار و دل گیر و نالاں

یہ جھوٹ اور سچ کے ادلتے بدلتے قوانین و میزاں
قوانین و میزاں کہ جن سے ہراساں
یہ مخلوق ۔۔۔ نادار و بے کار و وحشت زدہ و سراسیمہ
مخلوق ۔۔۔ بے راہ و بے سمت و حیراں

چلو یہ اگر بن گیا تھا ۔۔۔ بہت تھا
مجھے کیوں بنایا؟
مری عقل کو کیوں بتائی حقیقت
زمین و زماں کی
مکاں لا مکاں کی
یقین و گماں کی
مرے سر پہ پھیلے ہوئے آسماں کی
مری عقل کو یہ حقیقت بتا کر
زمیں کے بجائے
مجھے آسماں کی طرف دیکھنا کیوں سِکھایا؟

;;;;;

محبت۔۔ زندگی سے بھی -18












;;;;;


کہاں ہوں میں؟ ۔۔۔ کہاں ہے تو؟
زمانوں سے مجھے اک جستجو
دل بے نیاز ِ ہا و ہو
تو ماورائے رنگ و بو ۔۔۔۔
شام ِ سفر ۔۔۔ امید ہی رہوار ہے میرا
ستارہ شام کا، حد ِ نظر سے بھی کچھ آگے اُڑتا جاتا ہے
ہوائیں میرا پیچھا کر رہی ہیں
زندگی کو راستے کے موڑ پر رکھ کر
میں شاید بھول آئی ہوں ۔۔۔۔

کہاں ہے تو؟
کہاں ہے تو ۔۔۔ زمیں کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے
دھوپ ڈھلنے سے بھی کچھ پہلے
اندھیرا، منظروں پر پھیلتا ہے
آسماں، اپنے کناروں سے نکل کر بہہ رہا ہے
لوگ، یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں
راستے پر رات کی آہٹ

کہاں ہوں میں؟
کہاں ہوں میں کہ سارے لوگ
یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں
لوگ ۔۔۔ سارے لوگ
سارے ۔۔۔ درد میں بھیگے ہوئے اور آس میں لتھڑے ہوئے
سب ۔۔۔ زندگی کو اپنے اپنے ٹوٹتے کاندھوں پہ لادے
منزلوں پیچھے رُکے ہوں گے
رُکے ہوں گے ۔۔۔ پلٹ کر جا چھکے ہوں گے ۔۔۔
خدا جانے

کہاں ہے دل؟
کہاں ہے دل ۔۔۔ نہیں تھا ۔۔۔۔
ہاں مگر میں نے یہ سمجھا تھا
کہ میری جستجو کے ساتھ ہے
سارے جہاں کے رنگ و بو کے ساتھ ہے
اور زندگی کی آرزو کے ساتھ ہے
گرچہ محبت ۔۔۔۔ زندگی سے بھی ضروری تھی
مگر اب تو بہت ہلکی ۔۔۔ کسک سی ہے

;;;;;

17-اب پھول چنیں گے

;;;;;

اب پھول چنیں گے کیا چمن سے
تو مجھ سے خفا، میں اپنے من سے

وہ وقت کہ پہلی بار دل نے
دیکھا تھا تجھے بڑی لگن سے

جب چاند کی اشرفی گری تھی
اک رات کی طشتری میں چَھن سے

چہرے پہ مرے جو روشنی تھی
تھی تیری نگاہ کی کرن سے

خوشبو مجھے آ رہی تھی تیری
اپنے ہی لباس اور تن سے

رہتے تھے ہم ایک دوسرے میں
سرشار سے اور مگن مگن سے

یہ زندگی اب گزر رہی ہے
کن زرد اداسیوں کے بن سے

کیا عشق تھا، جس کے قصّے اب تک
دہراتے ہیں لوگ اک جلن سے

;;;;;

16-تنہا، سر انجمن

;;;;;

تنہا، سر انجمن کھڑی تھی
میں اپنے وصال سے بڑی تھی

اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر
پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی

اک عمر تلک سفر کیا تھا
منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی

طالب کوئ میری نفی کا تھا
اور شرط یہ موت سے کڑی تھی

وہ ایک ہواےء تازہ میں تھا
میں خواب قدیم میں گڑی تھی

وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا
میں اپنے حضور میں کھڑی تھی

;;;;;;

15-بہشت

















;;;;;

کیسا اچھا تھا
ہم پھولوں والے باغ میں مل کر رہتے
اور اُس گہرے کنج میں

( جس میں جھانک کے میں چیخی تھی
اور تیرے سینے سے لپٹ گئی تھی

اپنی اپنی فکروں کی گٹھڑی کو رکھ کر
بھول ہی جاتے
بہتر ہوتا
ہم اپنے اپنے چغے اور دستار اتار کے
اس گٹھڑی میں رکھ دیتے
اور پتوں کا ملبوس پہن کر
گھٹتے بڑھتے سایوں سے باتیں کرتے

پھر جب تو پورا سورج بن کر ہنس پڑتا
میں آدھا چاند بنی، پہروں روتی رہتی
تو اپنے ہونٹوں سے میرے آنسو پیتا
پھر جب میں رات کی رانی ہوتی
تب تو بھنورا بن کر ساری راتیں
۔ ۔ ۔ مجھ پر منڈلاتا
پھر جب تو دن کا راجا ہوتا
میں تتلی کے روپ میں
تیرے چاروں اور پھرا کرتی
صبحوں میں تیرے میرے سِحر کی روشنی
اور شاموں میں تیری میری
آسیبی آنکھوں کا سرمہ ہوتا

پھر سب طائر
اپنی اپنی بولی بھول کے
صرف ہمارا نغمہ گاتے
ہر جانب سے خلقت آتی
اور ہم میں شامل ہو جاتی
پھر باہم سب سمتوں میں
ہم اپنے رب کو
سجدہ کرتے

;;;;;

14- سسکنے لگی ریت

;;;;;

سفر آغاز کِیا کیا کہ سسکنے لگی ریت
سانس میں بھر گئی آنکھوں میں کھٹکنے لگی ریت

دل کو پتھر سے جو ٹکرایا تو جلنے لگی آگ
تن پہ صحرا کو لپیٹا تو بھڑکنے لگی ریت

ترے سناٹے میں اس طرح سے گونجی مری بات
کہ مرے پاؤں کے نیچے سے سرکنے لگی ریت

تیز رَو اتنا نہ بن اے مرے صحرا زادے
صبر اے دل! تری رفتار سے تھکنے لگی ریت

غم مرا تھا مگر اک عمر سے گریاں ہے یہ رات
جوگ میرا تھا، جسے لے کے بھٹکنے لگی ریت

اب کریدے بھی تو کیا پائے گا یہ ناخن ِہوش
اور گہرائی میں کچھ اور دہکنے لگی ریت

کس کی آواز کا جادو تھا کہ بہنے لگی رات
کس کی آہٹ کا فسوں تھا کہ دھڑکنے لگی ریت














چاند نکلا ۔ ۔ ۔ تو بہت دور تلک پھیل گیا
نیند سے جاگ اٹھی اور چمکنے لگی ریت

;;;;;

13-نہ شوق ہے، نہ تمنا

;;;;;

نہ شوق ہے، نہ تمنا، نہ یاد ہے دل میں
کہ مستقل کسی غم کی نہاد ہے دل میں

ہے الف لیلہ ولیلہ سی زندگی در پیش
سو جاگتی ہوئ اک شہر زاد ہے دل میں

جو ضبط چشم کے باعث نہ اشک بن پایا
اس ایک قطرہء خون کا فساد ھے دل میں

پھر ایک شہر سبا سے بلاو ا آیا ہے
پھر ایک شوق سلیماں نژاد ھے دل میں

ہے ایک سحر دلآویز کا اسیر بدن
تو جال بنتی، کوئ اور یاد ہے دل میں

تمام خواہشیں اور حسرتیں تمام ہوئیں
مگر جو سب سے عجب تھی مراد ہے دل میں

;;;;;

12-ایلی ایلی لما سبقتنی

;;;;;

دل مرا خون ہوا
اور مرا تن خاک ہوا
پیرہن ذات کا بوسیدہ ہوا
چاک ہوا

شہر ِجاں
مثل ِکراچی سوزاں
لرزاں و ترساں و گریاں
ویراں

شام اترتی ہے تو اندھیارے سے
خوف آتا ہے
اک دعا چاروں طرف گونجتی ہے
لوٹ کر خیر سے گھر کو آئیں''
وہ گل اندام، وہ مہ رُو میرے
آنکھ کے موتی، جگر کے ٹکڑے

رات آتی ہے تو دل ڈوبتا ہے
میرے اطراف میں اک وہم کا خونی سایا
کوئی ہتھیار لیے، گھومتا ہے
نیند میں جائے پنہ ملتی نہیں
کسی منزل کے لیے رخت ِسفر باندھنا کیسا
کوئی رَہ ملتی نہیں

شہر یاران جدال ِ کمی و بیش میں گم)
اور نادیدہ عدو ۔۔۔ سازش ِ پیہم میں مگن

نہیں معلوم مرا کون سا دوست
مرغ کی بانگ سے پہلے مرا انکار کرے
کس اندھیرے میں، کہاں، کوئی غنیم
گھیر کر وار کرے
نہیں معلوم
کہاں تک مجھے خود اپنی صلیب
اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے اب چلنا ہے
نہیں معلوم مگر پاؤں مرے کانپتے ہیں
دل مرا جب ڈوبتا ہے
اک صدا ہونٹوں پہ سسکی کی طرح آتی ہے

اے خدا ! میرے خدا''
تو نے بھلا
کیوں مجھے تنہا چھوڑا؟

--------------------------------
ایلی ایلی لما سبقتنی ۔۔۔۔
عیسٰی علیہ السلام کے آخری الفاظ

;;;;;

11-سزا

;;;;;

جاؤ
نفرت کرنے والوں کے چہروں کو دیکھو
ان کی آنکھیں ۔۔۔ دوزخ کے دروازے ہیں
اور تہہ خانوں میں جلتی اگ سے
ان کے دِلوں کی دیواریں کالی ہیں

ان چہروں کو دیکھو جن کے دانت
دہن سے باہر جھانکتے رہتے ہیں
اور بات کریں
تو منہ سے ان کے کف بہتا ہے
جن کا سامنا سچائی سے ۔۔ نا ممکن ہے
جو پھولوں کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں
جن کے روشن دان پہ کبھی پرندے
بیٹھ کے گیت نہیں گاتے
جن کے آنگن میں جا کر
دھوپ اور بارشیں عفت کھو دیتی ہیں
جن کی زبانیں
خوش لفظوں سے ۔۔۔ نا واقف ہیں
جن کے حرف کسی اچھے کی سماعت سے ٹکرا کر
پتھر بن جاتے ہیں
وہ ۔۔ جو لوگوں کی خوشیوں کی موت پہ
خوشی مناتے ہیں
سائل پر کتے چھوڑتے ہیں
اور اپنے دروازوں پر
کالے، پیلے رنگ سے ۔۔۔ کھوپڑیاں بنواتے ہی











جاؤ۔۔۔ اور ان چہروں کو دیکھو
آج سے تم
ان میں شامل ہو

;;;;;

10-غم کی پہلی بہار میں

;;;;;


وہ جو غم کی پہلی بہار میں بنے آشنا
انہیں کوئی غم کا سندیس بھیج کے دیکھیے
انہین پوچھیے
کہ نگاہ ِ وصل شناس میں کوئی اور ہے
جو ستارہ وار بلا رہا ہے کسی طرف
کہ یہ اپنی ذات سے کشمکش کی دلیل ہے

کوئی کیا کہے
کہ نئے جہان کی آرزو کے طلسم سے ہے
زبان گنگ
کوئی سنے بھی تو کیا سنے
کہ بلا کا شور امڈ رہا ہے فصیل ِشہر ِخیال سے
یہ جو حد ِشہر ِخیال ہے
یہ جُنوں کے گِرد خرد کی ایک فصیل ہے
یہ دلیل ہے
کہ وہ اپنی ذات کے عشق میں رہے سرگراں

انہیں کوئی نامۂ عشق بھیج کے دیکھئے
کہ اِدھر بھی ایک ستارہ ہے
جو نئے جہاں کی سبیل ہے
انہیں ڈھونڈیے
وہ جوغم کی پہلی بہار میں ۔۔۔ بنے آشنا

;;;;;

9-پیا باج پیالہ پیا جائے نا














;;;;;

مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں تھی
کہ جو زندگی کی رگوں سے
جواں خون کی آخری بوند تک کھینچ لے
جسم کا کھیت بنجر کرے

اِس لیے جب سے تو اُس سفر پر گیا
میں نے آئینہ دیکھا نہیں
ساری دنیا سے اور آسماں تک سے پردہ کِیا
میں نے سردی میں دھوپ اور گرمی میں
سائے کی پروا نہ کی
زندگی کو نہ سمجھا کبھی زندگی
عادتاً سانس لی

بھوک تو مر گئی تھی جدائی کی پہلی ہی ساعت میں
لیکن ابھی پیاس باقی ہے
اور ایسی ظالم کہ میرے بدن پر ببول اُگ رہے ہیں
زباں پر بھی کانٹے پڑے ہیں

مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں ہے
کہ جو موت اور زندگی میں کوئی فرق رہنے نہ دے
پھر بھی یہ جان لے
گر مجھے چشمہء آب ِ حیواں بھی مل جائے
اک بوند
تیرے بنا مجھ پہ جائز نہیں

;;;;;

8-میں تمہارے عکس کی

;;;;;

میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آٰ ئینہ ہی بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی

وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ھے
میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھی

کبھی وقف ہجر میں ہو گئ کبھی خواب وصل میں کھو گئ
میں فقیر عشق بنی رہی، میں اسیر یاد ہوئ رہی

بڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئ
وہ رداےء ابر سپید جو ، سر کوہسار تنی رہی

ہوئ اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی
تو نہ جانے کون سی چیز کی میری زندگی میں کمی رہی

;;;;;

7-آخرِشب

;;;;;

آخر ِشب ۔۔۔ فلک سے اترتی ہوئی شبنمیں ساعتوں میں
ستاروں کی جھلمل تلے ، جب زمیں سو رہی تھی
زمیں ۔۔۔ سانس لیتی ہوئی ایک عورت کے مانند
کھولے ہوئے نقرئی چھاتیاں، سو رہی تھی
تو سانسوں کے اس زیرو بم میں
سمندر، پہاڑوں سے ملتے ہوئے ۔۔۔ جاگتا تھا
فضا ۔۔۔ گھور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی
پر اندھیرے سے جیسے کوئی آنکھ مانوس ہو
اور سب دیکھتی ہو
ستاروں کی جھلمل فلک سے اترتی ہوئی
اور ترائی میں ۔۔۔ بھیگا ہوا حسن

اس نے کہا
حسن اندھیروں میں کھلتا ہے''
اور روشنی اک لبادہ ہے
آنکھیں، بہت دور تک دیکھنے کی ہوں خوگر
تو اکثر بہت پاس کی شے نہیں دیکھ پاتیں
محبت سِکھاتی ہے جب
دیکھنا ، سوچنا، یاد رکھنا
تو نفرت کو پوشیدہ رکھو
کہ نفرت وہ پتھر ہے ، جس کو
پہاڑون کا سینہ نہیں جھیل پاتا
وہ شعلہ ہے، جس کو سمندر بجھانا بھی چاہے
تو قاصر رہے

اور محبت کرو
سیدھی سادی محبت کہ جو زندگی کا
بہت دور تک ۔۔۔ آخری دم تلک ساتھ دے
صورتوں سے، اداؤں سے، ناموں سے، روحوں سے
سب سے محبت کرو
ہاتھ میں ہاتھ منزل کا پہلا نشاں ہے
تو منزل مسافت کی حد پر گڑی ہے

مگر زندگی
تیز پانی کے ریلے کی زد پر پڑا ۔۔۔ گول پتھر
بلندی سے گرتی ہوئی آبشاریں نہیں دیکھتیں
ان کی زد پر ہیں پتھر کہ خاشاک و خس
آدمی
پتلیوں کی طرح ۔۔۔ آسماں کے تلے
ایک سفاک ڈوری میں جکڑا ہوا
ناچتے ناچتے ناچتے
ختم ہو جائے گا

;;;;;

6-لمس زندہ رہے

;;;;;

جوتشی نے کہا

تیرے مقسوم میں اک محبت ہے''
ایسی محبت
ازل سے ابد تک کی سب چاہتوں کا جو حاصل ہے
عشق کی روح بھی جس میں جاری و ساری ہے
(اک وحشیانہ تڑپ اور کسک)
اور الفت کی دھیمی، مہکتی ہوئی آنچ بھی
تیری قسمت میں ایسی محبت ہے
جو لمس سے ماورا
وصل کی خواہشوں سے جدا ہے
داہنے ہاتھ کی ایک ریکھا بتاتی ہے
تجھ کو محبوب کے وصل سے کچھ تعلق نہیں
اس کی چاہت
فقط اس کی چاہت ترا منتہائے نظر ہو تو بہتر رہے گا

مرے دل سے اک آہ نکلی
مگر اس محبت سے کیا فائدہ
میں بھی جلتی رہوں، وہ بھی جلتا رہے؟
اب تو محبوب کو دیوتا مان کر
یا خدا جان کرپوجنے کی کہانی
فسانہ ہوئی
اب حقیقت جو ہے وہ فقط وصل ہے
میری اور اس کی ہستی کا شاہد اگر کوئی ہے
تو فقط لمس ہے

میرے مقسوم میں پیار ہے تو مرے ہاتھ میں
اے خدا
وصل قائم رہے
لمس زندہ رہے

;;;;;


5-سب سلا مت رہیں

;;;;;

سب سلامت ہیں
۔۔۔ پھر بھی مجھے ایسا لگتا ہے
تنہائی، میرے مقدر میں لکھی گئی ہے
کہ تنہائی ہی فرش، تنہائی ہی میری چھت
میرے اطراف میں صرف تنہائی
تنہائی چادر ہے تن کی
تو من میں بھی تنہائی ہی گونجتی ہے

مرا آسماں ڈھے گیا ہے
زمیں ذرہ ذرہ ۔۔۔ خلا میں بکھر کر۔۔۔ فنا ہو چکی ہے
مرا باپ، ماں، بھائی، بہنیں، عزیزواقارب، سبھی دوست، محبوب
سب مر چکے ہیں

میں تنہائی کے گھُپ خلا میں ۔۔۔ بھٹکتی ہوں
سانسوں کا زہراب پیتی ہوں
زندہ ہوں
لیکن اکیلی ہوں میں

سب سلامت رہیں، سب سلامت رہیں)
(! اے خدا! اب سلامت رہیں

;;;;;

4-جنگل

;;;;;

جاگتی آنکھوں سے میں نے خواب یہ دیکھا کہ جنگل ہے
گھنے پیڑوں، گھنیری جھاڑیوں، وحشت بھری پگڈنڈیوں
ویران راہوں اور گہری کھائیوں کا ایک جنگل ہے
گجر دم کا سماں ہے ۔۔ چند گز کے فاصلے سے
بھیڑیوں کے غول کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں
رفتہ رفتہ ان صداؤں پر
کسی کوئل کی مدھ ماتی صداؤں کا فسوں غالب ہوا جاتا ہے
کوئل صبح کے دلکش سکوں پرور ترانے گا رہی ہے
جب کسی جانب سے شیروں کی دہاڑیں
پورے جنگل کی فضا میں گونج اٹھتی ہیں ۔۔ تو جنگل کانپ جاتا ہے
میں گھبرا کر ۔۔ سراسیمہ سی ہو کرایک جانب ہٹنے لگتی ہون
سنہری چوٹیوں والے گھنیرے پیڑ کے سینے سے لگ جاتی ہوں
اور تھوڑا سکوں محسوس کرتی ہوں
گماں ہوتا ہے ۔۔ دنیا کے جھمیلوں سے الگ ہو کر
میں ماں کی مہرباں آغوش میں سمٹی ہوئی ہوں
پیڑ کی اک شاخ مجھ کو تھپکیاں دیتی ہے
تب ''زن'' سے کوئی شے میرے قدموں سے ذرا ہٹ کر گری ہے
ملگجی سی روشنی میں، میں نے دیکھا ہے
وہ اک پھنیر، سیہ، میری کلائی سے ذرا موٹا
بڑا سا ۔۔ سانپ ہے
میں چیخ اٹھتی ہوں ۔۔ تڑپ کر بے تحاشا دوڑنے لگتی ہوں
اس دم پیڑ کی شاخوں سے لٹکے
شہد کے چھتے میں اک ہلچل سی ہو تی ہے
سپاہِ نیش زن میرے تعاقب کے لیے ۔۔ پر تولتی ہے
خوف اور دہشت کے ان لمحوں میں ۔۔ آنکھیں موند کر
میں ایک پگڈنڈی پہ ہو لیتی ہوں
لیکن کون بتلائے ۔۔ یہ پگڈنڈی کسی بستی کی جانب جا رہی ہے
یا کوئی خونخوارشیر اس کو
کچھاروں کی طرف جانے کو ہی رستہ بنائے ہے
اسی پل ۔۔ اک جگہ مجھ کو مہک محسوس ہوتی ہے
میں آنکھیں کھولتی ہوں
اف، یہ خطّہ غالباً جنگل کے ہرحصّے سے بڑھ کر خوب صورت ہے
یہاں ہر سمت ہی مخمل کی اک گہری ہری چادر بچھی ہے
اوس میں بھیگی ہوئی ۔۔ اور چار جانب
جنگلی پھولوں کی خود رو جھاڑیاں ہیں اور بیلیں ہیں
میں سب کچھ بھول کر اک پھول کی جانب لپکتی ہوں
معاً اک سرسراتی بیل کی لچکیلی ٹہنی ۔۔ میرے بازو پر تڑپتی ہے
لپٹتی ہی چلی جاتی ہے ۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے
کہ اس کا گوشت کھانے اور خوں پی کر گزارا کرنے والی
جھاڑیوں سے کچھ تعلق ہے ۔۔ میں چیخیں مارتی ہوں
میں مدد کے واسطے آواز دیتی ہوں ۔۔ میں روتی ہوں
میں اس لمحے تو سچ مچ ہچکیاں لے لے کے روتی ہوں
مگر کوئی نہیں سنتا!
درندوں کی کچھ آوازیں مرے کانوں میں پڑتی ہی ۔۔۔۔۔
ادھر زہریلی آدم خور بیلوں کا شکنجہ ۔۔ تنگ ہوتا جا رہا ہے
وہ مری شہ رگ کو جکڑے ۔۔ میرا خوں پینے لگی ہیں
میری آنکھیں درد کی شدّت سے پھٹنے کو ہیں
میرے منہ سے کچھ بے ربط آوازیں نکلتی ہیں
مگر اب ذہن سُن ہونے لگا ہے ۔۔۔۔۔۔۔



















آخری لمحوں میں ۔۔ میں نے آنکھ بھر کر
جسم و جاں کی ساری قوت
اپنی آنکھوں میں اکٹھی کر کے ۔۔ دیکھا ہے
ذرا کچھ فاصلے پر ۔۔اک پہاڑی کے ادھر ۔۔ سورج ابھرتا آ رہا ہے
اور اس کی خوشنما کرنیں ۔۔ اندھیروں کو ہرا دینے پہ نازاں ہیں
سو اب میری نگاہوں میں حقیقت کا اجالا گھلتا جاتا ہے
میں اس دم ۔۔ تم سے محوِ گفتگو ہوں
اور تمہاری ذات کے منظر ۔۔ مری آنکھوں پہ کھلتے ہیں

;;;;;

3-اجنبی آؤ

;;;;;

اجنبی آؤ
دیکھو، امنگوں کی نوخیز کلیاں
جو مرجھا رہی ہیں
تمہارے لیے وقت ۔۔۔ چنچل پرندہ
مرے سانس پتھر تلے دب چکے ہیں
مری عمر کچھ کٹ چکی ہے
جو باقی ہے ۔۔۔ اک کرب میں کٹ رہی ہے

اگر اجنبی تم نہ آؤ
تو پیغام بھیجو
اگر کوئی چنچل پرندہ ملے ۔۔۔ وقت کا
اس کی گردن میں باندھو کوئی سبز کاغذ
کوئی سبز کاغذ کہ جس پر لکھو ۔۔۔ اپنے ہاتھوں
انوکھی، پر اسرار، سب رنگ تحریر
پھر وہ پرندہ مری سمت بھیجو
تو پھر اجنبی، وہ پرندہ
(اگر ہو سکے تو)
مرے سانس پتھر تلے سے نکالے
مرا کرب چکھے
وہ کاغذ
تمہاری پراسرار، سب رنگ تحریر والا
محبت کا تعویذ کر کے
مری سُونی گردن میں ڈالے

;;;;;