Thursday, December 17, 2009

101- ایک نگاہ اس طرف

;;;;;

آئنہ رکھ دیا گیا عکس جمال کے لیے
پورا جہاں بنا دیا، ایک مثال کے لیے
خاک کی نیند توڑ کر آب کہیں بنا دیا
ارض و سما کے درمیاں خواب کہیں بنا دیا

خواب نمود میں کبھی آتش و باد مل گئے
شاخ پر آگ جل اٹھی، آگ میں پھول کھل گئے
ساز حیات تھا خموش، سوز و سرود تھا نہیں
اس کا ظہور ہو گیا جس کا وجود تھا نہیں

خاک میں جتنا نور ہے ایک نگاہ سے ملا
سنگ بدن کو ارتعاش دل کی کراہ سے ملا
دشت وجود میں بہار اس دل لالہ رنگ سے
رنگ حیات و کائنات اس کی بس اک امنگ سے

قرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مرے قریب تھا
قصہء ہست و بود میں کوئی مرا حبیب تھا
تیرہ و تار راہ میں ایک چراغ تھا مرا
کوچہ ء بے تپاک میں کوئی سراغ تھا مرا



ہو کے دیار خواب سے
کیسی عجب ہوا گئی
شیشہء تابدار پر
گرد ہی گرد جم گئی
بھول چکا ہے اپنی ذات
بھول گیا ہے اس کا نام
سوز و گداز کے بغیر
لب پہ درود اور سلام





مدت عمر ہو گئی اس کو عجیب حال میں
فرق ہی کچھ رہا نہیں شوق میں اور ملال میں
دل کی جگہ رکھا ہے اب، سنگ سیاہ اس طرف
ہجر و وصال کے خدا! ایک نگاہ اس طرف

;;;;;

100-قلم کو اِذن ملے

;;;;;

قلم کو اِذن ملے بابِ کبریائی سے
تو حرفِ نعت لکھوں دل کی روشنائی سے

درود، آسرا بن جاتا ہے دعا کے لیے
وگرنہ جان لرزتی ہے لب کشائی سے

بلند سر ہے یہ امّت، تمام امتّوں میں
ترے وجودِ مقدس کی آشنائی سے

مرے رسول! یہ امّت ہے زخم زخم تمام
عطا ہو اس کو شفا، لطفِ انتہائی سے

ہو ان پہ رحم کہ جو آنسوؤں میں ڈوب گئے
جبیں جھکاتے ہوئے فرطِ بے ریائی سے

توجہ ان پہ، جو گویا ہیں دھیمے لہجے میں
جو پچھلی صف میں ہیں احساس ِکم نمائی سے

قبول ان کی وفا بھی ہو یا رسول اللہ
پہنچ نہ پائے جو در پر شکستہ پائی سے

حضور! اُن کے دِلوں کو گداز بخشا جائے
جو سنگ بستہ ہوئے زَعم ِ پارسائی سے

حضور! ایک کرم کی نظر آُن آئنوں پر
شکستہ ہیں جو زمانے کی بے وفائی سے

حضور! جن کے گھروں میں چراغ جلتے نہیں
انہیں عطا ہو کرن، نور کی خدائی سے

حضور! اب ہوئے خاشاک و خس، دل و جاں بھی
جگائیے اِنہیں اک موجِ کہر بائی سے

ہمارے چاروں طرف جھوٹ موجیں مارتا ہے
حضور! اور بپھرتا ہے حق نوائی سے

ہے دل پہ بارِ غم ِ زندگی، اور اتنا ہے
حضور! ہٹتا نہیں ہے غزل سرائی سے

زمانہ اور زمان و مکاں نہیں مطلوب
حضور! ایک ہی پَل،عرصہء حِرائی سے

بس ایک خوابِ سَحر یاب،اس شبِ غم میں
حضور! ہم کو ملے قسمت آزمائی سے

بس ایک راہِ تمنّا، حصارِ دنیا میں
حضور! دل کی طرف، دل کی رہنمائی سے

بس اب تو نعت کہیں اور ٹوٹ کر روئیں
ملے گی راحتِ جاں، درد کی کمائی سے

;;;;;

99-میوز

;;;;;

بہت سرمئی دھند تھی ۔۔۔ آسماں سے زمیں تک
مرا نرم دل نو دمیدہ تھا
نوزائیدہ تن تھا ۔۔ شیشے کے مانند نازک
ابھی تک بہت خواب دیدہ تھا
اور چشم حیراں ذرا نیم وا تھی
مری نیم وا چشم حیراں نے ۔۔۔ مشرق کی جانب
افق میں سیہ اور شفاف آئینے پر
اپنے طالع کو بیدار ہوتے ہوئے
پہلی ساعت میں دیکھا
وہ ساعت کہ جس کے اجالے کے نیچے
مری زندگی نے، کنار عدم سے ادھر پاؤں رکھا
مرے جسم نے باغ دنیا میں بہتی ملائم ہوا کا
ذرا نیم شیریں
ذرا نیم سرداب چکھا
مرا نرم دل جو ابھی نو دمیدہ تھا
اس آئنے میں خود اپنا وجود خفی دیکھتا تھا
تو اس ائنے میں جھلکتے ہوئے اس نے دیکھا
مرے ساتھ ۔۔۔۔ اک اور چہرہ

ازل سے ابد کی طرف جاتے حیران رستوں پہ
قرنوں تلک نور ہی نور تھا
رستہء سیم تن کے کناروں پہ رنگیں گلابوں کے تختے مہکتے تھے
خوشبو کی بارش فضائے جہاں پر اترتی تھی
حد سماعت سے آگے تلک نقرئی گھنٹیوں کی صدا تھی
مری جاں، شب و روز کے فہم سے ماورا تھی


کوئی چاندنی سا لبادہ پہن کر
میں اپنے بدن کی لطافت میں
جب آسماں سے زمیں کی طرف اٹھ رہی تھی
مرا ہاتھ تھامے ۔۔۔ مرے ساتھ تھے تم



سنہری بدن پر ۔۔۔
مرا تن سنبھالے
گلابی لبوں پر ۔۔۔
مرا لمس اٹھائے
ملائم نظر میں محبت کی
رنگین دنیا سجائے








تمہاری چمک دار زلفوں سے
کتنے زمانوں کی تازہ ہوائیں گزرتی تھیں
آنکھوں کی اس نیلمیں تاب میں
سینکڑوں شنگرفی سر زمینیں ۔۔۔ کئی نیلگوں آسماں تھے
زمیں سے فلک تک ۔۔۔ ہزاروں نظارے نمایاں تھے
لیکن مری چشم حیراں میں ۔۔۔ یہ سب تماشا نہیں تھا
فقط تم عیاں تھے
رگ جاں میں بہتے ہوئے سرخ خوں میں رواں تھے

مری روح کے سبز شعلے میں
اونچی ۔۔۔ بہت اونچی اٹھتی ہوئی ایک لو تھی تمہاری
مرے سر کے اطراف میں جس سے نورانی ہالہ بنا تھا
کہ تم اولیں خواب ہستی کی صورت
خدائے محبت کے مانند
دل میں نہاں تھے

---------------------
Muse---شاعرانہ الہام

;;;;;

98-بھیگتی ہوئی شب کے

;;;;;

بھیگتی ہوئی شب کے بھیگتے اندھیرے میں خواب کتنا گہرا تھا
کب خبر ہوئی مجھ کو رات میری آنکھوں کے پاس کون ٹھہرا تھا

عمر کاٹ دی ساری کیف ِ خود نمائی میں، لذت ِ جدائی میں
آئنہ جو دیکھا تو آئنے کی آنکھوں میں ایک اور چہرہ تھا

راستے میں پڑتا تھا باغ اک عجب جس پر تیرگی برستی تھی
سب درخت کالے تھے شاخ شاخ پر لیکن پھول اک سنہرا تھا

دل سے کہہ دیا ہم نے اب نصیب ہے اپنا عمر بھر کی تنہائی
لیکن ایک سایا سا مضطرب تمنا کا دل کے پاس ٹھہرا تھا

شہر ِ دست بستہ میں کس طرف سے آتا پھر احتجاج کا پتھر
دل فریب وعدوں کے قفل تھے در ِدل پر، جسم و جاں پہ پہرا تھا

;;;;;


97- باغ کے اندر کھلا

;;;;;

قصر کا در باغ کے اندر کھلا
پھر طلسم ِ شوق کا منظر کھلا

نیند میں کھویا ہوا تھا ایک شہر
روشنی میں خواب سے باہر کھلا

دھوپ تھی اور دن کا لمبا دشت تھا
رات کو باغ ِ مہ و اختر کھلا

زندگی فانوس و گلداں ہو گئی
اس طرح اک دن وہ شیشہ گر کھلا

اب تلک بے جسم تھا میرا وجود
یہ تو اس کے جسم کو چھو کر کھلا

اک جزیرے سے ہوا لائی پیام
بادباں لہرا گئے، لنگر کھلا

ڈوبنے سے ایک لمحہ پیشتر
ساحل ِسر سبز کا منظر کھلا

ایک قسمت، شمع، پروانے کی ہے
راز یہ اس شعلے کی زد پر کھلا

وہ محبت تھی ردائے مفلسی
پاؤں کو ڈھانپا تو میرا سر کھلا

پھر ستارہ وار اس کو دیکھنا
طائر ِ بستہ کا جونہی پر کھلا

آخر ِ شب تک مسافر کے لیے
ہم نے رکھا دل کا اک اک در کھلا


;;;;;

96-سامر

;;;;;

جادو اثر ہے
جو بھی تُو تسبیح پرپڑھتا ہے
صبح و شام میرے سامنے
آنکھوں میں تیری سِحر ہے
آواز میں ہے ساحری
تیرے بدن کے آبنوسی رنگ میں ہے وہ کشش
جو مجھ کو پاگل کر گئی














چہرہ ترا ۔۔۔
بچپن سے میرے خواب میں آتا رہا


ماتھے پہ کالی زلف کی یہ اُلجھی لٹ
میرے پریشاں دل سے الجھی ہی رہی
نظروں میں منڈلاتی رہیں
چوڑی بھنویں اور گہری آنکھیں
میرا رستہ روکتی آنکھیں
تری جادو بھری یک ساں نظر سے
خوں کی اک اک بوند ۔۔۔ اک اک سانپ بن کر
اس بدن میں
سرسراتی ۔۔۔ رینگتی ۔۔۔ چلتی رہی
اُن سانولے ہونٹوں پہ گہری پیاس کا اَن مِٹ نشاں
میرے لبوں پر ۔۔۔ پیاس کا صحرا جگاتا
ریت پر کوئی بگولہ بن کے لہراتا رہا

جادو اثر ہے وِرد تیرا
ایسا لگتا ہے کہ ان ہونٹوں کی ہر جنبش
مرے دل میں تمنّا کا الاؤ سا جلاتی ہے
مرے تن پر اشارے سے ۔۔۔ کوئی لیلٰی بناتی ہے
مجھے اپنی طرف ہر پَل بلاتا ہے
تری آواز کا افسوں
مرا مجنوں

ہمیشہ ، رستہ ء دوراں کے کالے موڑ پر بیٹھا ہے
ممنوعہ شجر کے سائے میں
ہر دم ۔۔۔ سُلگتی خواہشوں کی
کوئی دُھونی سی رمائے
اپنی پیشانی پہ ۔۔۔ دنیا رنگ کا
قشقہ لگائے

سِحر ہے اواز میں
تسبیح تیرے ہاتھ میں
اک جان لیوا وِرد ہے تیرے لبوں پر
ہجر کا اک دشت ہے میرے بدن میں
سنسناتی پیاس ہے میرے لبوں پر

;;;;;

95-راستے پر خطر تو آئے

;;;;;

نہیں تھی آسان منزل ِ عشق، راستے پر خطر تو آئے
حدود ِ سود و زیاں سے پھر بھی کسی طرح سے گزر تو آئے

لدی ہوئی ہیں ہوائیں اب بھی پرانی یادوں کی خوشبوؤں سے
کبھی کبھی راہ بھول کر ایک نرم جھونکا ادھر تو آئے

کوئی نہ پوچھے کہ آنے والے سفر میں کن منزلوں سے گزرے
علاقہء غیر سے تو نکلے ہیں، شام سے پیشتر تو آئے

زمین اک نور ِزندگی سے سبھی کا مرکز بنی ہوئی ہے
فلک کے حصے میں گو ہزاروں نجوم و شمس و قمر تو آئے

اگر وہ ناراض بے سبب ہے تو دل ہمارا بھی کم طلب ہے
نہ حال پوچھے دکھائی ہی دے، نہ پاس آئے نظر تو آئے

کتاب میں دل نہیں لگا تو کوئی نئی فلم ہی لگائیں
کسی بہانے یہ شب تو گزرے کسی طرح سے سحر تو آئے

نہیں کہ اس آنکھ میں ہمیشہ اداسیاں، رت جگے ملیں گے
ہزار پیکر سجے ملیں گے ذرا مرا خواب گر تو آئے

مجال کیا گردِ راہ کی ہے، اتر کر آ جائیں گے ستارے
قدم ٹھہر جائیں گے ہواؤں کے، راہ میں تیرا گھر تو آئے

یہ باقی ماندہ جو زندگی ہے ، گزر نہ جائے نباہنے میں
پھر اس کی باتوں میں آکر اس سے اک اور پیمان کر تو آئے

اداس ہوں گے قدیم ساحل، نراس ہو جائے گا کبھی دل
نئے جزیروں کے ساحلوں پر نئی لگن میں اتر تو آئے

بسے بسائے گھروں سے اٹھ کر بس ایک ہی پل میں چل پڑیں گے
نہ ساتھ کچھ زادِ راہ لیں گے، ذرا وہ وقت ِسفر تو آئے

;;;;;

94-چراغ ِ عشق تو جانے









;;;;;

چراغ ِ عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے
سر ِمحراب ِ جاں بس اک گماں رکھا ہوا ہے

ہوائے شام اڑتی جا رہی ہے راستوں پر
ستارہ ایک زیر ِآسماں رکھا ہوا ہے

یہی غم تھا کہ جس کی دھوم دنیا میں مچی تھی
یہی غم ہے کہ جس کو بے نشاں رکھا ہوا ہے

ہٹے، تو ایک لمحے میں بہم ہو جائیں دونوں
گلہ ایسا دِلوں کے درمیاں رکھا ہوا ہے

تری نظریں، تری آواز، تیری مسکراہٹ
سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھا ہوا ہے

لرزتا ہے بدن اس تند خواہش کے اثر سے
کہ اک تنکا سر ِآبِ رواں رکھا ہوا ہے

مُصر ہے جس کو میرا باغباں ہی کاٹنے پر
اک ایسی شاخ پر یہ آشیاں رکھا ہوا ہے

کہیں کوئی ہے انبارِ جہاں سر پر اٹھائے
کہیں، پاؤں تلے سارا جہاں رکھا ہوا ہے

الاؤ جل رہا ہے مدتوں سے داستاں میں
اور اس کے گرد کوئی کارواں رکھا ہوا ہے

رکی جاتی ہے ہر گردش زمین و آسماں کی
مرے دل پر وہ دست ِمہرباں رکھا ہوا ہے

;;;;;

93-آئنہ آئنہ ہے تنہائی

;;;;;

(1)

آئنہ ڈھونڈتی ہے تنہائی
ایسا لگتا ہے کہ اک مدت سے
اپنا چہرہ ہی نہیں دیکھا ہے
ماند پڑتی ہوئی ۔۔۔ آنکھوں کی چمک دیکھی نہیں
لب و رخسار کی افسردہ جھلک دیکھی نہیں
اپنی بے رنگی ِ ملبوس سے ہے نا واقف
اپنا کھویا ہوا بے نام سراپا ہی نہیں دیکھا ہے

آئنہ ڈھونڈتی ہے تنہائی
دیکھنا چاہتی ہے عارض و چشم و لب کو
دیکھنا چاہتی ہے اپنا ہی بے نام سراپا شاید
ماند پڑتی ہوئی آنکھوں میں کسی اور کا شعلہ ۔۔۔ شاید
کانپتے ہونٹوں پہ اک نام کا کھلتا ہوا پھول
زرد رخساروں پہ اک لمس ِ خفی کی سرخی
سانس کے ساتھ کسی اور کی سانسوں کی تپش
دیکھنا چاہتی ہے کو ئی شناسا شاید


(2)


آئنہ دیکھتی ہے تنہائی
اتنی مصروف تھی ہنگامہء روز وشب میں
اپنا تن ۔۔۔ اپنا سراپا ہی نہیں دیکھا تھا
غیرتوغیر ۔۔۔ شناسا ہی نہیں دیکھا تھا
آنکھ میں رنگ ِ جنوں
دل میں کوئی عشق کا سَودا ہی نہیں دیکھا تھا

اب جو دیکھا تو عجب صورت ِ احوال نظر آئی ہے
غیر کا عکس ۔۔۔ نہ دلدار سراپا کوئی
نہ کوئی دوست، نہ غم خوار، نہ اپنا کوئی
۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ میں وحشت ِ دل
دل میں لیے عشق کا سودا کوئی ۔۔۔۔۔۔










آئنہ آئنہ ۔۔۔۔ تنہائی ہے
تنہائی ہے

;;;;;

92- خوشبو سے بہلائے

;;;;;

ہم تو بس اک موجہء خوشبو سے بہلائے گئے
اور تھے وہ پھول جن کو رنگ پہنائے گئے

پھر ہوائیں کچھ عجب سرگوشیاں کرنے لگیں
اس سے پہلے دل کو چھو کر شام کے سائے گئے

اس خیال ِ جانفزا سے آشنائی جب ہوئی
پھر کبھی ہم اپنی قربت میں نہیں پائے گئے

دیر تک الجھے ہوئے بالوں میں دل الجھا رہا
پیش ِآئینہ بہت سے ہجر دہرائے گئے

کس طرح کی بستیاں تھیں راہ کے دونوں طرف
کون تھے وہ لوگ جو اس راہ پر آئے، گئے

شہر سے سارے پرندے کر گئے ہجرت اگر
پھر بھلا کیوں موسموں کے جال پھیلائے گئے

کس ستارے سے اتر کر آ رہی ہے یہ مہک
کس زمیں سے اس زمیں پر پھول برسائے گئے

ایک چٹکی سرخ سے گلنار ہے سارا افق
ایک مٹھی سبز سے ،بن سارے سبزائے گئے

جگمگا اٹھے تھے سب ہی دیوتاؤں کی طرح
جب یہ پتھر چاند کی کرنوں سے نہلائے گئے

جانتے ہیں خوب اُس مہماں سرائے دل کو ہم
ہاں کبھی ہم بھی وہاں کچھ روز ٹھہرائے گئے

تھا یہی عشق و غم ِدل کا فسانہ ، گر کبھی
دور افتادہ زمانوں کے سخن لائے گئے

;;;;;

91-ماؤں کا المیّہ

;;;;;

جواں ہوتے مغرور بچوں کی ماؤں کا
۔۔۔۔۔۔۔ کیسا عجب مسئلہ ہے
انہیں زندگی میں، نئی زندگی کی تمنا ہے

آئنہ دیکھیں تو اس میں کسی اور کا
خوب صورت نویلا بدن
آنکھ میں جاگتی اک کرن
شوق کا اجنبی بانکپن ۔۔۔ دیکھ سکتی ہیں





آنکھوں میں
خوابوں کا
کاجل لگاتی ہیں
ہونٹوں کی
معصوم سرخی
چھپاتی ہیں
اور مسکراتی ہیں




اور مسکراتی ہیں ۔۔۔ اپنے بدن میں
دھڑکتے ہوئے دل کی موجودگی پر

بدن ۔۔۔ جس پہ دیوار و در کا
سلیقے سے بستے ہوئے پورے گھر کا
اور ایک ایک لخت ِ جگر کا
بہت رنگ گہرا ہے
عزت، تقدس کا ہر سانس پر سخت پہرا ہے

دل ۔۔ جس کو گھر اور گرہستی کے نیچے دبے
بے بدن جیسے، ٹھنڈے بدن سے نکل کر
کسی دھوپ کے سرخ میں ۔۔۔
خوں نہانے کی خواہش ہے
خوابوں کی اک رنگنائے میں
۔۔۔ غوطہ لگانے کی خواہش ہے
نیلی فضا میں، بہت دور جانے کی خواہش ہے
اک دودھیا پر ۔۔۔ پرندے کو بانہوں میں لینے کی
افلاک میں اک گلابی ستارے کو چھونے کی
ماہِ منور کو پانے کی خواہش ہے

دل ۔۔۔ جس کو عزت کی چادر میں لپٹے ہوئے
سرد پڑتے ہوئے اور ڈھلکتے ہوئے ۔۔۔ ماس کو
پھر دہکتا ہوا، تن بنانے کی خواہش ہے
گلزار ِ ہستی میں
موجودگی کا کوئی گُل کھلانے کی
شب کے دھڑکتے اندھیرے میں ۔۔ سیجیں سجانے کی
دنیا کی نظروں سے چھپ کر
۔۔۔۔ سراندیپ دنیا، بسانے کی خواہش ہے

اس دل کے ہونے پہ ۔۔۔ حیران ہوتی ہیں
اپنے جواں ہوتے مغرور بچوں کی ۔۔۔ معصوم مائیں
کبھی مسکراتی ہیں
پھر اپنی اس مسکراہٹ پہ روتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''سراندیپ'' serendipitous

;;;;;

90-کہانی کام آئی

;;;;;

کسی کی سرخروئی کی کہانی کام آئی
سواد ِ عشق میں اک خوش گمانی کام آئی














بہت خطرات تھے، جنات تھے رستے میں لیکن
پری کی دی ہوئی کوئی نشانی کام آئی

حقیقت میں بھی جنگل کاٹ آیا شاہزادہ
مگر اس کام میں پوری جوانی کام آئی

محبت اصل میں حاصل نہ تھی اس زندگی کو
ضرورت آ پڑی تو ۔ ۔ ۔ داستانی کام آئی

ٹھہر جاتے تو ہم بھی وقف ِدنیا ہو گئے تھے
سو بحر ِشوق، تیری بیکرانی کام آئی

سنبھالا ہے کسی کی دوستی نے ہم کو ایسے
نئی ٹوٹی ۔ ۔ ۔ تو کوئی شے پرانی کام آئی

یہاں امید کی، واں اک ستارے کی چمک تھی
زمینی بجھ گئی تو ۔ ۔ ۔ آسمانی کام آئی

وفور‌ِ رنج سے سار بدن جلنے لگا تھا
تو ایسے میں یہ اشکوں کی روانی کام آئی

کوئی اب لا مکاں سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے
بالآخر عمر بھر کی بے مکانی کام آئی

ہمارا بھی شہیدان ِ وفا میں ذکر ہو گا
خود اپنے عشق میں یہ زندگانی کام آئی

;;;;;

88-محبت اور نفرت

;;;;;

مری آنکھوں کی نیلی پتلیوں پر جو سنہری دھند چھائی ہے
محبت ہے
مگر اس دھند کے بادل سے آگے
خوف کے سنسان رستے کی بہت لمبی حدوں کے پار
اک تاریک و وحشت ناک جنگل ہے
جہاں ہر شاخ پر اک بوم بیٹھا ہے
جہاں سب جھاڑیوں میں بھیڑیے دبکے ہیں
ساری بانبیوں میں سانپ رہتے ہیں

ہوا کی نا ملائم سرسراہٹ نے بھلا دھیرے سے تجھ سے کیا کہا
جو کچھ کہا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے
تیرے وفا نا آشنا کانوں نے
جو کچھ بھی سنا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے
یہ آرزو ۔۔۔ یہ جستجو ۔۔۔ حرف ِ وفا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے
یہ زندگی ۔۔۔ اس کا حسیں چہرہ
یہ خد و خال ۔۔۔ یہ نازو ادا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

ہاں سچ تو یہ ہے ۔۔۔ اج تیری چشم ِحیراں کے نظارے کو
وہاں میدان میں اک جشن ِ رنگ و نور برپا ہے
ذرا تو یاد تو کر۔۔۔ مدتوں پہلے ۔۔۔ کوئی جادو بھری اک رات تھی
اور زندگی کے سبز میداں میں ۔۔۔ اک ایسا ہی
سنہرا جشن برپا تھا
جوانی کی سلگتی، تلملاتی خواہشوں سے
عشق کی شدت سے گھبرا کر
شبستان ِمحبت سے تجھے میں نے پکارا تھا
اجالوں سے ذرا دوری پہ
گہرے سرخ پھولوں سے بھرے اُس کنج میں
اک دلربا ، گل رنگ بوسہ ۔۔۔ تیرے ہونٹوں پر رکھا تھا
یاد کر ۔۔۔ تو کس قدر وحشت سے یوں پیچھے ہٹا
جیسے ترے ہونٹوں سے کوئی سانپ یا بچھو ۔۔۔ چھوا ہو
میرے دل پر آج بھی چسپاں ہے ۔۔۔ وہ دہکا ہوا لمحہ

محبت اور نفرت
ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں
تری حیران آنکھوں کے مقابل
آج بھی اک جشن ِرنگ و نور برپا ہے
ترے پندار کی پہلی ہزیمت کا
جہاں میں آج
اپنے حسن کی طاقت کا نظارہ کروں گی

زندگی کے خواب آسا لب سے ٹپکا
سرخ بوسہ ۔۔۔ تو نے ٹھکرایا تھا
اب میں بر سرِ دربار
خوں آشام کالی موت کا بوسہ
ترے ہونٹوں پہ رکھوں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ہیرودیاس کی بیٹی اندر آئی
اور اس نے ناچ کر بادشاہ اور اس کے مہمانوں کو خوش کیا
تو بادشاہ نے اس لڑکی سے کہا ” جو چاہے
مجھ سے مانگ، میں تجھے دوں گا“ ۔۔۔
اس نے کہا
” !یوحنا، بپتسمہ دینے والے کا سر ,,

(مرقس 29-16)

;;;;;


87- کسک بن کے رہوں

;;;;;

خواب میں دیکھے ہوئے منظر ِحیرانی کی
عشق میں بیتی ہوئی پہلی پریشانی کی
عرصہء جاں میں کسی گوشہء ویرانی کی
یاد بن جاؤں
جھلک بن کے رہوں


جس طرح گلشن ِ ہستی میں کوئی موج ِ ہوا ہوتی ہے
جیسے جتلائی نہیں جاتی مگر رسم ِ وفا ۔۔۔ ہوتی ہے
جیسے وہ جانتا ہے ۔۔۔ جس پہ گزرتا ہے فراق
پھانس، ٹوٹی ہوئی امید کی کیا ہوتی ہے

جس طرح لمحہء کمزور میں گر جائے کوئی غم
لب ِ بے قابو سے
جس طرح ہوتی ہوئی فتح بنے
بس یونہی پل بھر میں شکست
جیسے عمروں کا بھرم ہوتا ہو اک آن میں ریزہ ریزہ
چشم ِ مجبور کے اک آنسو سے
جس طرح اٹھ کے اچانک ہی چلا جائے کوئی پہلو سے

جیسے بچھڑے کوئی جلوت کا شناسا
کوئی خلوت کا رفیق
دور ہو جوئے کوئی جسم کا ساتھی
کوئی راتوں کا شریک
جیسے غم خوار ِ محبت ہی بنے
لطف ِ محبت میں فریق

یوں لہو کو ترے شعلاؤں
تپک بن کے رہوں
میں ترے دل میں ۔۔۔ ہمیشہ کی
کسک بن کے رہوں

;;;;;

86-امتحان سے ہم

;;;;;

کچھ ایسے گزرے ہیں عشق کے امتحان سے ہم
نکل کر آئے ہوں جیسے اک داستان سے ہم

قبول کر تو لیے تھا سادہ دلی میں ہم نے
مگر نہ بہلیں گے عمر بھر تیرے دھیان سے ہم

کبھی حیا ہے، کبھی انا ہے طلب میں حائل
وجود اپنا ہٹائیں گے درمیان سے ہم

رہیں گے سچائی کے سپید و سیہ میں کیسے
گزر کر آئے ہیں رنگنائے گمان سے ہم

کوئی بلاتا ہے نوری صدیوں کے فاصلوں سے
کبھی تو آزاد ہوں گے اس خاکدان سے ہم

گلاب کی شاخ سے نہیں کیکٹس نکلتے
تو غم اٹھاتے ہیں کس لیے تیرے دھیان سے ہم











پڑا ہے فٹ پاتھ پر ہوا کا قدیم جھونکا
چلے ہیں منزل کو یاد کے اس نشان سے ہم

سرکتی جاتی ہو دل سے کوئی چٹان جیسے
ہٹا رہے ہیں کسی کا غم ، جسم و جان سے ہم

نجانے کب اگلا پاؤں ہم ان کے پار رکھ دیں
گزر رہے ہیں ابھی زمان و مکان سے ہم

کچھ اس طرح سر کشیدہ رہتے ہیں فکرِ فن میں
کلام کرتے ہوں جس طرح آسمان سے ہم

;;;;;

85-یہ دستیاب عورتیں

;;;;;

یہ بے حجاب عورتیں
جنہوں نے سارے شہر کو
کمالِ عشوہ و ادا سے
شیوہء جفا نما سے
بے قرار اور نڈھال کر رکھا تھا
جانے کون چور راستوں سے
کوچہء سخن میں آ کے بس گئیں

کسی سے سُن رکھا تھا ۔۔۔ '' یاں فضائے دل پذیر ہے
ہر ایک شخص اس گلی کا، عاشق ِ نگاہِ دلبری
معاملاتِ شوق و حسن و عشق کا اسیر ہے
کہ سینکڑوں برس میں پہلی بار ہے
زنانِ کوچہء سخن کو اِذن ِ شعر و شاعری
بس ایک دعویء سخں وری کی دیر ہے کہ پھر
تمام عیش ِ زندگی
قبول ِ عام ۔۔ شہرت ِ دوام کی اضافی خوبیوں کے ساتھ
پیش ہوں گے طشتِ خاص و عام میں سجے ہوئے
مگر یہ ہے کہ دعویء سخن وری کے واسطے
کہیں کوئی کمال ہونا چاہیئے
خریدنے کو مصرعہ ہائے تر بتر
گِرہ میں کچھ تو مال ہونا چاہیئے''

یہ پُر شباب عورتیں
چھلک رہی تھیں جو وفورِ شوق سے
تمام نقدِ جسم ۔۔۔۔۔
زلف و عارض و لب و نظر لیے ہوئے
مچل گئیں ۔۔۔ متاع ِ شعر کے حصول کے لیے
سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی
تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے ۔۔۔ پیش ہو گئے
'' نگاہِ ناز کے لیے یہ سطر ہے
یہ نظم، مسکراہٹوں کی نذر ہے
یہ ایک شعر، ایک بات کے عوض
غزل ملے گی ۔۔۔ پوری رات کے عوض''

نہ پاسبانِ کوچہء سخن کو کچھ خبر ہوئی
نجانے کب یہ مول تول ۔۔۔ بھاؤ تاؤ ہو گیا
نجانے کب مذاق ِ حسن و عشق
اپنا منہ چھپا کے سو گیا
کمال ِ فن ۔۔۔ لہو کے اشک رو گیا
یہ کیا ہوا کہ پوری طرح روشنی سے قبل ہی
تمام عہد ۔۔ ایک سرد تیرگی میں کھو گیا

اور اب جدھر بھی دیکھئے
ہیں بے حساب عورتیں
ہر ایک سمت جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں
شب کے سارے راستوں پہ
دستیاب عورتیں

;;;;;

84-زلف شام یاد پھر

;;;;;

کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر
ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر

اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے
شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر

گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا
سامنے اک قریہء بے خواب و بے آباد پھر

رَم بہت کرنے لگا ہے یہ غزال ِ آرزو
پھیلتا جاتا ہے آنکھوں میں وہ دشت ِ یاد پھر

اس قدر نالاں وہ گر الفت کی یکسانی سے ہے
کس لیے ہوتا نہیں اس قید سے آزاد پھر

سیم سی اک پھیلتی جاتی ہے دیواروں پہ کیوں
بھر گئی تعبیر سے کیا خواب کی بنیاد پھر

بات تک کرنے کو گر اس شہر میں کوئی نہیں
کون سنتا ہے دل ِ بیمار کی فریاد پھر

نیند میں چلنے لگی بھیگی ہوئی ٹھنڈی ہَوا
خواب کے ہمراہ آئی اک پرانی یاد پھر

تن کو چھوتی ہیں کچھ ایسے فروری کی بارشیں
یہ خرابہ ہونے والا ہے ابھی آباد پھر

سامنے ہے پھر سے رنگا رنگ پھولوں کی بہار
دے رہی ہوں اپنے باغ ِ آرزو کو داد پھر

;;;;;

83-میری بھی اک زندگی

;;;;;

مری اک زندگی ہے ۔۔۔
جو تمہاری زندگی سے مختلف ہے
کوئی انہونی تمنا ۔۔۔
جو تمہاری آرزو سے مختلف ہے
ایک ویرانی کی خوشبو
جو تمہارے شہر کے ہر رنگ و بو سے مختلف ہے

زندگی میری وہ قریہ
سائے کے مانند
جس میں دھوپ آتی ہے
خموشی کی طرح آواز
پرچھائیں کی صورت لوگ
دھوکے کی طرح دنیا

کوئی گھر ۔۔۔
جس کی اک دہلیز ہے
دہلیز سے آگے ہے در
در میں ہے اک دیوار
دیواروں سے آگے اور دیواریں














کوئی کمرہ ۔۔۔
اندھیرے سے چمکتا ۔۔۔ خامشی سے گونجتا
گہرے اندھیرے کے نہاں خانے مین جیسے
خواب کے روزن سے آتی روشنی میں، دور تک پھیلا ہوا رنگیز
جس میں خاک کا ہر ایک ذرہ جگمگاتا ہے
مری نظروں کی زد میں ۔۔۔ دسترس سے دور
راتوں کے سرہانے جاگتے دن میں
یہ دردائی ہوئی آنکھیں ۔۔ گزرتے وقت کو
اک بے توجہ آشنائی سے مسلسل دیکھتی ہیں
سامنے گھنٹے، منٹ، سیکنڈ ۔ ۔ ۔ ۔
یکساں دائرے میں چلتے رہتے ہیں

ازل کی پہلی ساعت میں
مرے حصے کا سارا وقت ٹھرا ہے
ابد کی سمت بہتی ۔۔۔ اک کہانی ہے مری
لیکن تمہاری داستاں سے مختلف ہے

جو اداسی چھا رہی ہے ایک لمحے کو ۔۔۔ تمہارے نرم دل پر
میرے دل کی مستقل آزردگی سے مختلف ہے
میری بھی اک زندگی ہے
جو تمہاری زندگی سے مختلف ہے
______________
Spectrum - رنگیز

;;;;;

82- سہارا مجھے ملا

;;;;;

خوش ہوں کہ تیرے غم کا سہارا مجھے ملا
ٹوٹا جو آسمان، ستارہ مجھے ملا

کچھ لوگ ساری عمر ہی محروم ِ غم رہے
اک خواب ِ عشق تھا جو دوبارہ مجھے ملا

پھر شام ِ زندگی کے اُسی موڑ پر ہوں میں
جس شام، التفات تمہارا مجھے ملا

گردش میں لا کے پاؤں کے نیچے زمین کو
اک دور کے سفر کا اشارہ مجھے ملا

اِس ہجرمیں شریک تھا تُو بھی مرا تو پھر
کیسے ہوا کہ سارے کا سارا مجھے ملا

شایاں نہیں ہیں دل کے یہ غم ہائے روزگار
کیوں جو نہیں ہے مجھ کو گوارا، مجھے ملا

ہر اٹھتی موج کرنے لگی تھی زمیں سے دور
یوں، آسماں کا ایک کنارہ مجھے ملا

ترجیح تیری اور سہی اب مگر وہ خواب
سرمایہء حیات ہمارا، مجھے ملا

جلنے لگی تھیں مشعلیں خیموں کے آس پاس
پھر کیسے کوچ کا وہ اشارہ مجھے ملا

پھر رات کے دیار تلک ساتھ ہم چلے
رستے میں جب وہ شام کا تارا مجھے ملا

;;;;;

81-لیلٰی لیلٰی

;;;;;

خیمے میں چراغ جل رہا ہے
آئینے پہ چھائی ہے سیاہی
سب نقش و نگار کھو گئے ہیں
دھندلا ہے وجود کا یہ سایا
اپنی ہی نگاہ سے چھپا کر
کس شکل کو ڈھونڈتی ہے لیلٰی

اس دشتِ فراق ِ آرزو میں
اتری ہے ہمیشہ رات لیکن
یہ آج کی رات کچھ عجب ہے
خاموش ہیں پہرے دار سارے
گل ہیں سبھی مشعلیں زمیں پر
سوتے ہیں فلک پہ سب ستارے



اک موج ِ ہوا کے ساتھ ہر پل
آتی تھی حدی کی تان پہلے
اب تو وہ صدا بھی دم بخود ہے
وہ باد ِ شمال جس کے دم سے
ہو جاتا تھا خوشگوار صحرا
وہ نرم ہوا بھی دم بخود ہے

اس دشتِ ملال ِ آرزو سے
کچھ دور ہیں زندگی کی راہیں
یہ کیسا غبار ہے کہ جس میں
وہ شہر ِ جمال ِ یار گم ہے
پاؤں سے لپٹ گئی مسافت
اٹھتے ہیں بدن میں کیا بگولے
آنکھوں میں ٹھہر گیا اندھیرا
امید کا ہر دیار گم ہے

اک خواب کی آرزو میں نکلی
اور نیند کی آس توڑ آئی
لے آئی شبیہ ِ یار لیکن
آنکھوں کو وہیں پہ چھوڑ آئی
اب سارے جہان سے چھپا کر
کس شکل کو ڈھونڈتی ہے لیلٰی

ملبوس میں اب نہیں وہ خوشبو
آواز سے کھو گیا وہ جادو
دل میں ہے مگر وہی تمنا
تن کا ہے مگر وہی تقاضا
اپنے ہی وجود سے الجھ کر
کس درد سے ٹوٹتی ہے لیلٰی

کیسی ہے بدن میں بیقراری
آرام نہیں کسی بھی پہلو
کانوں پہ رکھے ہیں ہاتھ لیکن
اک شور مچا ہوا ہے ہر سو
کیا عکس نے یہ صدا لگائی
یا دیتا ہے آئنہ دہائی

لیلٰی! ترا وقت کھو چکا ہے
لیلٰی! ترا دشت لٹ گیا ہے
لیلٰی! ترا باغ جل رہا ہے

;;;;;

80-سحر ِ سامری

;;;;;

آسماں گنگ
زمیں ششدر ہے
زندگی اپنے گمانوں کی اسیر
مجھ سے خود اپنا پتہ پوچھتی ہے

اس سیہ خانہء دوراں میں کہیں
نور کی کوئی کرن ہے کہ نہیں
ہے کسی چشم ِ مروت میں دھڑکتا امکاں
یا کسی دل میں کوئی جائے اماں
پاؤں کے نیچے سرکتی ہوئی ریت
ایک دلدل میں بدلتی ہوئی ریت

کوئی محرم، کوئی ہمدم، کوئی دوست
کون موجود ہے ۔۔۔ کیا نا موجود
اجنبی چہروں کا سیلاب ہے اور آوازیں
جیسے اک خواب ِ پریشاں میں کوئی خواب ہے
اور آوازیں
دور سے نام مرا لیتی ہیں اور ہنستی ہیں
کوئی تضحیک ہے ۔۔۔ یا خوف ہے ۔۔۔ یا وہم ہے یہ
اپنی آنکھوں میں سیہ سایا لئے
اور ہونٹوں پہ طلسمی منتر
رسیاں پھینک رہا ہے کوئی
سانپ بنتے ہیں مرے چاروں طرف
تیز ہوتی ہے ادھر ورد کی لےَ
کچھ لہو رنگ شرارے سے اچھلتے ہیں
مرے چاروں طرف

میرے کِیسے میں نہیں ردِ طلسم
میرے ہونٹوں پہ کوئی اسم نہیں
زندگی صرف گمانوں کی اسیر
آسماں گنگ ہے
ششدر ہے زمیں

;;;;;

79- یا مرے خواب

;;;;;

ساز خاموش کو چھوتی ہے ـــــــ ذرا آہستہ
ایک امید ـــــ کسی زخمہء جاں کی صورت
لب پر آتے ہیں دل و ذہن سے الجھے یہ سوال
کسی اندیشے کے مانند ــــ گماں کی صورت

ذہن کے گوشہء کم فہم میں سویا ہوا علم
جاگتی آنکھ کی پتلی پہ ــــــ نہیں اترے گا
ڈوب جائے گا اندھیرے میں وہ نادیدہ خیال
جو چمکتاـــــــ تو کسی دل میں اجالا کرتا

جسم پر نشّے کے مانند ـــــــــ تصوّر کوئی
دل میں تصویر مجسّم کی طرح کوئی وصال
دفن ہو جائے گا اک ٹھہرے ہوئے پانی میں
میری آنکھوں کی طرح عشق کا یہ ماہ جمال

ایک ہی پل میں بکھر جائے گا شیرازہء جاں
ایک ھی آن میں کھو جائے گی لے ہستی کی
عمر پر پھیلی ــــــ بھلے وقت کی امید جو ہے
ایک جھٹکے سے یہ دھاگے کی طرح ٹوٹے گی














کیا بکھر جائیں گے ـــــ نظمائے ہوئے یہ کاغذ
یا کسی دست ملائم سے ـــــــ سنور جائیں گے
کیا ٹھہر جائیں گے اس لوح پہ سب حرف مرے
یا مرے ساتھ ــــــــ زمانے سے گزر جائیں گے

میری آواز کی لہروں سے، یہ بنتے ہوئے نقش
کیا ہوا کی کسی جنبش سے، بکھر جائیں گے
زندہ رہ جائیں گے ـــــــــ تعبیر محبت بن کر
یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے؟

;;;;;

78-لب ِ ساحل آئے

;;;;;

عشق دریا ہے تو آئے لب ِ ساحل آئے
موج کی طرح اٹھے اور اسے مل آئے

دل مسافر نہیں، مشتاق ِ سفر ہے ایسا
ڈر ہی جائے جو سوال ِ رہ ِ منزل آئے

ایسے اتری ہے چمن زار میں اک ساعتِ سبز
جیسے نقاش ِگُل و نقش گرِ گِل آئے

پُر سکوں ہے یہ بدن سرد سمندر کی طرح
ہاں، اگر سامنے کوئی مہ ِکامل آئے

شہر دل والوں سے خالی تو نہیں ہے، مانا
کوئی اس عشق ِجہاں تاب کے قابل آئے

سخت مشکل ہے دل و جاں کو سنبھالے رکھنا
روبرو کوئی مسیحا نہیں، قاتل آئے

نیند میں گھنٹیاں بجتی ہیں، غبار اٹھتا ہے
جیسے اس دشت میں اک خواب کا محمل آئے

جس کی غفلت سے اٹھائے ہیں الم سینکڑوں بار
پھر اسی چشم ِفسوں ساز پہ یہ دل آئے

بات کرتے ہیں تو آواز جھلس جاتی ہے
کون ان شعلہ مزاجوں کے مقابل آئے

ہفت آئینہ تھا یہ خانہء دنیا لیکن
زندگی کرنے کو اکثر یہاں غافل آئے

;;;;;

77-عشقین

;;;;;

مرے محبوب
مجھ کو تیرے دشمن سے محبت ہے

مجھے معلوم ہے یہ اعترافِ جاں گسل سن کر
تری غیرت کے دریا میں بہت طوفان اٹھے گا
تری رگ رگ میں بہتے خوں میں
وحشت سے ابال آنے لگے گا
اور ترے اندر جو خوابیدہ ہے صدیوں سے
وہ وحشی، ابتدائی اور قدیمی مرد
اک جھٹکے سے جاگے گا
تڑپ اٹھے گا اور اپنی نیام ِجاں سے ۔۔۔ نفرت کی
کوئی متروکہ تیغ ۔تیز کھینچے گا
کہ اک ہی وار میں یہ بے وفا سر
بے حیا تن سے جدا کر دے

مجھے یہ علم کب تھا
زندگی کے خوب صورت راستے میں
اس طرح نا آشنا ۔۔۔ نا مہرباں اک موڑ آئے گا
دل وجاں سے میں تیری تھی
تری آنکھوں، تری بانہوں، ترے دل میں
بہت ہی عافیت میں جان میری تھی
سنہرے جسم سے تیرے ۔۔۔ مجھے بھی والہانہ عشق تھا
چاہت بھری باتوں میں تیری لذتِ آسودگی تھی
جسم و جاں کی پوری سچائی سے لگتا تھا
مری دنیا مکمل ہے

اچانک ایک شب
اک محفل ِرنگیں میں میرا سامنا اُس ہوا
اس دشمن ِجانی سے تیرے
اب جو میرا دشمن ِجاں ہے ۔۔۔
مگر کچھ پیشتر، میں اک طرف بیٹھی تھی اپنے دھیان میں
اک لمپ کی کم روشنی میں ۔۔۔ گوشہء خاموش و بے امکان میں
جب اپنے چہرے پر ان آنکھوں کی تپش محسوس کر کے
میں نے اس کی سمت دیکھا تھا
وہ لمحہ ۔۔۔ آہ وہ لمحہ
وہ میری زنگی کا دلنشیں اور بد تریں لمحہ
کہ جب میری نظر اس کی سیہ آنکھوں سے لپٹی
سانولے چہرے سے ٹکراتی ہوئی
پیاسے لبوں پر جا رکی
لیکن اسی لمحے میں میری روح کھنچ کر آ گئی تھی
میری آنکھوں میں
نجانے کتنی صدیوں سے
مری جاں کے نہاں خانوں میں پوشیدہ تھی ایسی تشنگی
میں جس سے یکسر بے خبر تھی

وائے قسمت ۔۔۔ اس بھری محفل میں، میں نے
اپنے تن کی تشنگی کا ۔۔۔ اپنے دل کی ایسی تنہائی کا نظارہ کیا
وہ دل ۔۔۔ جو اب تک تیری الفت میں دھڑکتا تھا
ترے دشمن کے تیرِ عشق سے گھائل پڑا تھا

جانتی ہوں
یہ کہانی سن کے تیرے دل پہ کس درجہ قیامت ٹوٹتی ہے
تیری نس نس میں کئی چنگاریاں بھرنے لگی ہیں
انتقام ۔۔۔ اک سانپ بن کر تیرے خوں میں ناگتا ہے
پر نئی تہذیب سے روشن تری آنکھیں ۔۔۔ بہت خاموش ہیں
چہرہ بہت ہی پر سکوں ہے
ذہن ۔۔۔ جو گزری ہوئی ان بیس صدیوں کے کئی دانش کدوں
اور تربیت گاہوں سے چَھنتے نور سے معمور ہے
تجھ کو کسی بھی انتہائی فیصلے سے روکتا ہے

انتہائی فیصلے سے روکتی ہے
میری عقل ِناتواں مجھ کو
دل ِوحشی مگر رکتا نہیں ۔۔۔ یہ کیا قیامت ہے
مرے محبوب
اس کو تیرے دشمن سے محبت ہے

;;;;;


76-اپنی اپنی زندگی سے

;;;;;

اپنی اپنی زندگی سے ۔۔۔ لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔۔
بے نمایاں اور پُر اسرار چہروں ۔۔۔ گہری کینہ توز آنکھوں
کاری گر ہاتھوں ۔۔۔ دِکھانے اور کھانے والے دانتوں
دو مخالف راستوں پر ۔۔۔ یکساں مشّاقی سے چلنے والے پاؤں
کاگتی اور ٹرٹراتی شوخ آوازوں ۔۔۔ بہت عیّار باتوں
نوجوانی کا ذرا سا دھوکا دیتی ۔۔۔ پکی عمروں
دل سے اوپر ۔۔۔ پیٹ سے نیچے چُھپے جذبوں
ہزاروں رینگتی اور سرسراتی خواہشوں سے
شہرتوں سے

لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔ شہرتوں سے
جو انہیں چوری کے لفظوں ۔۔۔ بد مزہ غزلوں ۔۔۔
تشخّص کے لیے ترسی ہوئی نظموں
بہت سے بے سرو پا غیر فنّی تجربوں
ہر بزم میں موجودگی ۔۔۔ ہر راستے پر دستیابی کے عوض
یا پھر خدائی والدوں کی سر پرستی سے ملی ہیں
ہر طرف ۔۔۔ ساری زمیں پر کلبلاتے اور فضا میں بھنبھناتے
گھات میں بیٹھے ہوئے ۔۔۔ یا مار پر نکلے ہوئے
یہ لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔ اپنی اپنی زندگی سے

-----------------------------
خدائی والد - god fathers

;;;;;

75- رفاقت عجیب تھی

;;;;;

خوشبو کے ساتھ اس کی رفاقت عجیب تھی
لمس ہوائے شام کی راحت عجیب تھی

چشم شب فراق میں ٹھہری ہے آج تک
وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی

آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ
پر مستقل وصال کی وحشت عجیب تھی

لپٹا ہوا تھا ذہن سے اک کاسنی خیال
اترا تو جان و جسم کی رنگت عجیب تھی

اک شہر آرزو سے کسی دشت غم تلک
دل جا چکا تھا اور یہ ہجرت عجیب تھی

ملنے کی آرزو، نہ بچھڑنے کا کچھ ملال
ہم کو اس آدمی سے محبت عجیب تھی

آنکھیں ستارہ ساز تھیں باتیں کرشمہ ساز
اس یار سادہ رو کی طبیعت عجیب تھی

گزرا تھا ایک بار،ہوائے خزاں کے بعد
اور موجہء وصال کی حدّت عجیب تھی

ششدر تھیں سب ذہانتیں اور گنگ سب جواب
اس بے سوال آنکھ کی وحشت عجیب تھی

اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال
اس بار درد ہجر کی شدّت عجیب تھی

;;;;;

74-بمباری کے بعد

;;;;;

کہاں گیا اب؟
یہیں کہیں چشم ِ خاک آلود میں ۔۔۔ وہ جگنو سا خواب رکھا تھا
نیند آنے سے پیشتر ایک رات اتری تھی
ہنستے بستے چمکتے شہروں پہ
روز کی طرح رات اتری تھی

اُس نے اک خط
کہیں بہت دور جانے والے کے نام لکھا
اور اپنے چہرے کو آئنے میں دوبارہ دیکھا
کھلے دریچے سے
آسماں کی بسیط وسعت میں، کچھ ستارے
ذرا سا جُھک کر
زمیں کو حیرت سے دیکھتے تھے
فضا میں زیتون کی مہک، یاسمن کی خوشبو تھی
دل میں گہری طمانیت تھی
کہ جب فضا میں وہ سنسناہٹ کی گونج اُبھری

وہ اجنبی،جب مہیب چہروں پہ ۔۔۔ موت کا عزم
اور جہازوں میں اپنی مکروہ خواہشوں کا
دہکتا بارود بھر کے لائے
تو زندگی بے قرار ہو کر اِدھر اُدھر بھاگتی پھری تھی

''نہیں ۔۔۔ یہاں شاخ پر ابھی ایک گل کھلا ہے
یہاں شجر پر ۔۔۔ کئی پرندوں کے گھونسلے ہیں
نہیں ۔۔۔ یہ بچوں کا مدرسہ ہے
نہیں ۔۔۔ شفا خانہ ہے
یہاں پر مریض آتے ہیں زندگی کی امید لے کر
نہیں ۔۔۔ یہ گھر لَوٹتے ہوؤں کا ... بہت ہی گنجان راستہ ہے
نہیں نہیں ۔۔۔ اس کھلے دریچے میں
اک دیا انتظار کا اب بھی جل رہا ہے
مگر قیامت کے شور میں
زندگی کی آواز دب گئی تھی

دھویں کے بادل چَھٹے تو دیکھا ۔ ۔ ۔
جہاں دمکتے ہوئے مکاں تھے
وہاں پہ گہرے سیہ گڑھے ہیں
جہاں پر اک باغ رشکِ فردوس تھا
وہاں آگ لگ چکی ہے

وہ اک عمارت جو پَل میں ملبے کا ڈھیر ہے
اس کو بنتے بنتے نجانے کتنے برس لگے تھے
یہ گھر امیدوں کا تنکا تنکا اکٹھا کر کے
اِس آخری عمر میں بنا تھا
یہ خاک و خوں میں اَٹے ہوئے بے وقار لاشے
بہت ہی پیارے تھے ۔۔۔ لاڈلے تھے

ابھی ابھی جیتی جاگتی
جگمگاتی آنکھوں سے زندگی
سارے رنگ و رامش کو
دیکھتی تھی
اب اپنی نابینا انگلیوں سے
ٹٹولتی ہے



''کہاں گیا اب؟
یہیں ۔ ۔ ۔ کہیں ۔ ۔ ۔
نقشہء جہاں پر
وہ اک ستارہ سا
شہر رکھا تھا''










شہر ۔۔۔
جس کو زمیں پہ بستے ہوئے
زمانے گزر گئے تھے
وہ شہر ۔۔۔ جس پر بس ایک پَل میں
کئی فسانے گزر گئے تھے

;;;;;

Wednesday, December 16, 2009

74-شبِ ستارہ ساز کو

;;;;;

صدائے زندگی نہیں ۔۔۔۔ کسی اداس ساز کی صدا ہے یہ
نشیب سے بلند ہو رہی ہے
یا بلندیوں سے اِن سماعتوں تلک اُتر رہی ہے
اُٹھ رہی ہے اِس زمیں کی سانولی حدوں کے آس پاس سے
کہ نیلگوں فلک کی سُرمگیں لکیر کے اُدھر سے
کس طرف سے گنگنا رہی ہے یہ
شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں
ہَوائے بے نیاز کو خبر نہیں

یہ دشتِ ہَول ہے کہ دل کی بے بسی کا سلسلہ
یہ کہکشاں کی دھند ہے کہ زندگی کا راستہ
یہ خواب ہے کہ اک جہانِ خاک و آب و باد ہے
نئی زمیں کا آسرا ہے
یا ستارہء کہن کی کوئی یاد ہے
کوئی پہن کر آ رہا ہے چاندنی کا پیرہن
کہ ہے یہ صرف خاکِ مضطرب کا ریشمیں بدن

فصیل ِ شہر ِ جاں پہ کس کا عکس ہے
یہ آسماں کے بے نشان راستوں پہ کون محو ِ رقص ہے
یہ کوئی اجنبی ہے ۔۔۔ راہ رَو ہے
کوئی رند ہے ۔۔۔۔ نشے میں چُور
آشیاں سے دور ۔۔۔ کوئی بے نوا پرند ہے
کسی نگاہِ خوش میں تیرتا ہوا کوئی خیال
یا کسی شکستہ دل میں ۔۔۔ لمحہ لمحہ ڈوبتا ملال ہے

سیاہ رات کی جواں اداسیاں ۔۔۔ بکھر رہی ہیں ہر طرف
کہ گیت گا رہی ھیں وصل و ہجر کے
اداس دیو داسیاں
ستارے اک دبیز خواب میں چُھپے ہوئے ہیں
سو رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ جاگتے ہیں
آسمانِ شب کو کچھ خبر نہیں

کوئی وجود کی اتھاہ آرزو مین گُم ہوا
کوئی خلا کے بحر میں
کسی نئے خیال کی ۔۔۔ کسی نئے کنار کی
نئی زمیں ۔۔۔ نئی فضا کی ۔۔۔ خوابنا
کی آرزو میں گم ہوا
کوئی وفا شناس، بزم ِ بے تپاک سے اُٹھا
قدم اُٹھے کہ جسم خاک سے اٹھا
کہاں سے آ رہی ہے یہ عجب صدا

صدائے زندگی ہے یہ
کہ ساز ِ سرمدی کی اک صدائے خوابناک ہے
صدائے نور ۔۔۔۔ یا صدائے خاک ہے
ہوائے بے نیاز کو خبر نہیں
شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں

;;;;;

73-بس ایک خواب ِ بہار

;;;;;

اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک بہار کی شام
نظر بچا کے شب و روز کے تسلسل سے

وہ موسموں کا گزرگاہ ِ زندگی پہ سفر
ہَوائے یاد کی ویران بستیوں کی طرف
کہ جن کی راہ میں دیوار تھی عجیب کوئی
وہ سنگ و خشت کی دیوار
یا ارادے کی

وہ راستے، جو فقط راستوں کے سائے تھے
وہ واہموں کی حدیں ۔۔۔ مضطرب ارادوں پر
کہیں سرکتی، کسی سمت سرسراتی ہوئی
وہ شاخ شاخ پہ مثل ِ خزاں برستی ہوئی
وہ پھول پھول کے دل کو
بہت ڈراتی ہوئی

خزاں سے عہد نہ تھا اور موسم ِ گل سے
کبھی ملن نہ ہوا، وعدہء وفا نہ ہوا
وہ موسموں کی حکایت کتاب ِ دل میں رہی
فسانہ اہلِ چمن کا کہیں لکھا نہ گیا
کبھی پڑھا نہ گیا اور کبھی سنا نہ گیا
زمیں جو پاؤں کے نیچے، زمیں کا دھوکا تھی
کبھی ہری نہ ہوئی ۔۔۔ دُوب لہلہائی نہیں
مسافتوں کے سروں پر کھڑے یہ شاہ بلوط
جو اب سیاہ ہوئے انتظار ِ ہستی میں

ہَوا کے دوش پر آتا نہیں کوئی پیغام
نگاہ ِ ہجر میں کھلتا ہے صرف ایک گلاب
بس ایک خواب
فقط ایک خواب ِعشق مآب
مہ و ستارہ ۔۔۔ گل و برگ ۔۔۔ طائر و اشجار
صدائے خواب پہ ' لبیک' کہہ رہے ہیں تمام
اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک
بہار کی شام

;;;;;

72- حصار آخر ِکار











;;;;;

موسم ِ زرد کا ٹوٹا ہے حصار آخر ِکار
چشم ِ خوں رنگ نے دکھلائی بہار آخر ِکار

کس طرح لوگ مگر منزل ِ جاں پاتے ہیں
ہم ہوئے رستہء ہستی کا غبار آخر ِ کار

عکس آئینے پہ آئینہ ہوا عکس پہ دنگ
ایک سے لگنے لگے نقش ونگار آخر ِکار

خواب، مہتاب، ستارہ کہ مرے دل کی صدا
کون اترے گا تری رات کے پار آخر ِکار

راہ کے دونوں طرف پیڑ کھڑے تھے حیراں
سامنے تھا ۔ ۔ ۔ وہ تمنا کا دیار آخر ِکار

گاہے گاہے ہی سہی اٹھنے لگی چشم ِکرم
رفتہ رفتہ ملا اس جاں کو قرار آخر‌ ِکار

زرد ہونے سے ذرا قبل کھلا شاخ پہ پھول
گلشن ِجاں میں چلی بادِ بہار آخر ِکار

دوستوں کا یہی احساں ہے یہی مجھ پہ ستم
جان لی تو نے مری حالتِ زار آخر ِکار

دن کے ساتھ آئے گا تلخابِ غم ِدوراں بھی
ٹوٹ ہی جائے گا اس شب کا خمار آخر ِکار

ہم نے پتھر کی طرح آنکھ میں رکھے آنسو
بے حسی، تجھ پہ ہے اب دارو مدار آخر ِکار

کچھ ضروری تو نہیں منزل ِمقصود ملے
ختم ہو جائے اگر راہگزار آخر ِکار

موج کے ساتھ کوئی عکس بہا جاتا ہے
چشم ِحیراں بھی چلی جائے گی پار آخر ِکار

بے دلی، دل سے لپٹ جاتی ہے پہلے آ کر
بنتا جاتا ہے مرے گِرد حصار آخر ِکار

صبح کو بھول گئے جیسے ستاروں کا حساب
ترک کر دینا ہے زخموں کا شمار آخر ِکار

عندلیبِ چمن ِ عشق جو ٹھہرا تھا یہ دل
اک فسانے سے بنے ایک ہزار آخر ِکار

اس قدر محو رکھا چشم ِ محبت نے کہ بس
ہم بھی کہلانے لگے خواب نگار، آخر ِکار

;;;;;

71-تمہارے فسانے میں

;;;;;

شام کی ملگجی روشنی
راستوں کے کناروں پہ پھیلی ہوئی تھی
فضا، زندگی کی اُداسی سے لبریز اور زرد تھی
دُور تک ایک نیلے تسلسل میں بہتی ہوئی نم ہَوا
سرد تھی
آسماں نے زمیں کی طرف سر جُھکایا نہیں تھا
ابھی اختِرشام نے اپنا چہرہ دِکھایا نہیں تھا

کہ جب میں نے بیکار دنیا کے ہنگام سے اپنا دامن چُھڑایا
دلِ مضطرب کو دِلاسا دیا
آگے جانے کی جلدی میں
جنگل پہاڑ اور دریا
کسی کو پلٹ کر نہ دیکھا


کہیں وقت کی ابتدائی
حدوں پر کھڑے
اپنے پتھریلے ماضی
کی جانب
بس اک الوداعی
اشارہ کیا

خواب کا ہاتھ تھاما
نئے عزم سے
سر کو اُونچا کیا
اور تمہارے فسانے میں
داخل ہوئی



شام کی ملگجی روشنی راستوں کے کناروں پہ
اُس پَل تھمی رہ گئی
زندگی کی اُداسی سے لبریز ساری فضا
دم بخود
اور ہَوا اپنے پاؤں پہ جیسے جمی رہ گئی

;;;;;

70-تم مرے دل کی خلش

;;;;;

تم مرے دل کی خلش ہو ... لیکن
دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں

ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں
جسم بھی جس کا نہیں، دل نہیں، چہرا بھی نہیں
خال وخد جس کے مجھے ازبر ہیں،
دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو
راستہ، شیشے کی دیوار کے پار
گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو
اپنے ہی کان میں اک سرگوشی
لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی

یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے
باد ِ حیراں سے اڑانے کے لیے
موجہء غم سے مٹانے کے لیے

دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے
جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر
کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف
گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں

شام ہر روز اترتی ہے سر ِجادہء جاں
وہی اک کہنہ اداسی لے کر
زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر
جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں
ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن
سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن

تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو
جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے
پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں
تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔۔۔

;;;;;

69-وہ ہی قاتل مرا

;;;;;

دوستی دشمنی ایک ہی شخص سے، وہ ہی دلدار ہے وہ ہی قاتل مرا
چشم بے تاب ہے، جسم بے خواب ہے، دل تو آگے ہی تھا نیم بسمل مرا

سنسناہٹ سی کیسی فضاؤں میں ہے وسوسے ہیں ہواؤں کی آٓواز میں
تھامتی ہوں بہت روکتی ہوں بہت، ڈوبتا جا رہا ہے مگر دل مرا

جھاگ اڑاتی ہوئی موج در موج میں ڈوبتی اور ابھرتی ہے ناؤ مری
دور ۔ ۔ ۔ حد نظر سے ذرا فاصلے پر کہیں مسکراتا ہے ساحل مرا

ہمسفر! پھر بھی اچھی طرح سوچ لو، بس چراغ ِتمنا مرے پاس ہے
منزلیں بھی کچھ اتنی یقینی نہیں، راستہ بھی زیادہ ہے مشکل مرا

ان درختوں کے گہرے گھنے جھنڈ سے ایک رستہ نکل کر چلا اُس طرف
اک کنواں پھر شجر، پھر وہ پکی سڑک، پھر نظر آئے گا سنگ ِمنزل مرا

سرمئی شام کے سائے ڈھلنے کو ہیں تہہ بہ تہہ ابر کے پر سمٹنے کو ہیں
رات کے شبنمیں سرد رخسار پر اب چمکنے کو ہے ماہ ِ کامل مرا

زندگی، روشنی، خواہشیں، لذتیں چھوڑتا ہے بھلا کون کس کے لیے
کس قدر خام تھا وہ ارادہ ترا اور بھروسا تھا کس درجہ باطل مرا

کیا غبار ِطلب سے کوئی نعرۂ عشق، آواز ِپا تک ابھرتی نہیں
دشت ِامید میں منتظر ہیں کہیں، سبز خیمہ مرا، سرخ محمل مرا

میرے بس میں کہاں خواب اور آرزو، خواب اور آرزو دسترس میں کہاں
سرسراتی ہوئی ریت پاؤں تلے اور ہواؤں کی زد پر ہے حاصل مرا

;;;;;

Saturday, December 5, 2009

68-جنموں کی تقدیر لے کر

;;;;;

کئی سرد جنموں سے اک عمر لے کر
کئی زرد عمروں سے جاگی ہوئی ایک عورت
جو بے خوابیوں سے فقط خواب بُنتی ہے
اور وصل کے گلستاں سے فقط ہجر چُنتی ہے
دھندلائے رستوں پہ ۔۔۔ بے حد کی جانب رواں
موتیوں کی طرح اشک ۔۔۔ سب راستوں پر گراتے ہوئے
اپنی غزلائی آنکھوں سے
پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتی

راستوں کے دھندلکوں میں بہتا ہوا وقت
شہر اور جنگل کی وحشت
زمیں پر ستاروں کے سائے
فلک پر کھلے پھول
ساری فضاؤں‌ میں یادوں کی خوشبو
زمانے کی آنکھوں میں حیرت
بہت پُر ستائش نگاہیں
کئی گرم بانہیں ۔۔۔ کئی سرد آہیں

مناظر کسی فلم کی طرح ۔۔۔ تیزی سے
آنکھوں کے پردے پہ چلتے ہیں
ساری زمیں اس کے سوئے ہوئے نرم قدموں کے نیچے
کہیں دور تک بہتی جاتی ہے
اور ذات کے اسم ِخاموش سے
اک خموشی کے متروکہ در کھلتے جاتے ہیں
رستوں میں رستے بدلتے ہیں
سب حادثے ۔۔۔ اپنی باری سے آتے ہیں ۔۔۔ جاتے ہیں

اک عمر میں، کتنے جنموں کی تقدیر لے کر
نگاہوں میں ہستی کی تصویر لے کر
وصال ِمکمل کی تعبیر لے کر
یہ عورت
اسی ہجر کے بے نہایت میں کھو جائے گی
جاگتے جاگتے ۔۔۔ خواب ہو جائے گی

;;;;;

67-یہ مسافر













;;;;;

عمر کی سانولی سہ پہر کے کنارے
گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر
مسافر ۔۔۔ بہت سخت حیراں کھڑا ہے
کہ جس طرح بے انت رستے نے
اس کے قدم لے لیے ہیں

ہوا کی عمودی گزرگاہ پر ایک پتھر کی صورت
کبھی آسماں پر سیاہی میں ہلکی سی سرخی کے
اس میل کو دیکھتا ہے
کبھی دور تک دھوپ اور چھاؤں کے
چمپئی کھیل کو دیکھتا ہے
کبھی ہمکلامی کی خواہش سے بیتاب
اور دوسرے پَل ۔۔۔ بس اک لمسِ بے ساختہ کا
حسیں خواب

گہری خموشی کے بے انت میں
زرد تنہائی میں
اور عمروں پہ پھیلی ہوئی ۔۔۔ بے تمنائی میں
سادہ دل ۔۔ سادہ رُو ۔۔ تشنہء آرزو ۔۔۔ اک مسافر
جو عمر ِگریزاں کی اِس سہ پہر کے کنارے
گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر
بہت خوش تمنا کھڑا ہے
اگر دیکھ پاتا کبھی ۔۔۔ اولیں صبح کی وہ گلابی
اگر دیکھ پاتا ۔۔۔ دہکتی ہوئی دوپہر آفتابی

;;;;;

66- ہوائے خواب اڑا

;;;;;

ہوا کے دوش پہ کوئ نگر بسا ہوا ہے
کہ بادلوں میں کہیں کوئ گھر بسا ہوا ھے
عجیب راستہ ہے دھند لکے میں چلتا ہوا
چلا ہی جاتا ہے ہر دل ادھر مچلتا ہوا
نشانیاں سی افق پر عیاں نظر آئیں
کلس دکھائ دیے، برجیاں نظر آئیں

پھر ایک شہر کھلا ایسے چشم حیراں پر
کہ جیسے وہم سا پھیلا ہوا نمایاں پر
زمین سرخ پہ صد رنگ گل مہکتے ہوئے
فضائے سبز میں تارے کئی چمکتے ہوئے
عجیب سحر ہے جس سے مہک رہی ہے ہوا
یہ کیسا نشہ ہے جس سے بہک رہی ہے ہوا
ہیں ہوش مند کہ بے ہوش ہیں یہاں کے مکیں
پیے بغیر ہی مد ہوش ہیں یہاں کے مکیں

سبھی ہیں نام لبوں پر کوئ سجائے ہوئے
سبھی ہیں سینے سے تصویر اک لگائے ہوئے
کوئ خلاؤں میں تکتا گزرتا جاتا ہے
کوئ خموشی سے اک آہ بھرتا جاتا ہے
کہیں کسی سے الجھ کر گرا کوئ شاید
کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا کوئ شاید

سب ایسے ٹوٹ کے بکھرا کوئ گماں جیسے
بنا ہو تاش کے پتوں کا اک مکاں جیسے
نظر کے سامنے اک دشت زرد پھیلا ہوا
جو دل ٹٹول کے دیکھا تو درد پھیلا ہوا
ہوا کے دوش پہ جیسے نگر بسا ہی نہ تھا
کہ بادلوں میں کہیں ایک گھر بسا ہی نہ تھا
خبر نہیں کہ نظارے وہ کس طرح دیکھے
وہ دھوپ اور ستارے وہ کس طرح دیکھے

ہوائے خواب اڑا لے گئ کسی جانب
کہ موج درد بہا لے گئ کسی جانب

;;;;;

65-یروشلم

;;;;;

منار مقدّس پہ ---- وعدے کی تصدیق بن کر
فرشتوں کے شانوں پہ ھاتھوں کو پھیلائے
اک روز عیسٰی جو اترا
تو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا

سلیماں کے ہیکل میں
سونے کے بچھڑے کی مورت سجی تھی
فضاؤں میں ''لا '' کی صدا تھی
ہواؤں کی آواز نوحہ سرا تھی

منار مقدّس کے نیچے بسی
کلمہ گوؤں کی سخت وحشت زدہ بستیوں پر
عجب سحر خاموش چھایا تھا
فرعون دوراں کے قانون شب رنگ سے
تابش نور حق پر، اندھیرے کا پہرہ تھا
جبر مسلسل کے ہاتھوں میں جکڑی ہوئی----- وقت کی نبض تھی
گنگ تھی ساری صدیوں کی آواز
اور عہد موجود کی چشم انصاف ----- پتھرا چکی تھی

فلسطیں کی خاک لہو رنگ پر ----- پاؤں رکھا
تو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا

محمّد کی مظلوم امّت کے
معصوم پھولوں کے ہاتھوں میں پتھر تھے
اور سامنے---- امّت سامری کی سپہ تھی
وہ پتھر نشانوں پہ لگتے نہیں تھے
مگر امّت سامری کی کسی توپ کا قہر
اپنے نشانوں سے ہرگز نہیں چوکتا تھا

فضاؤں میں ''لا '' کی صدا تھی
وہ ''لا '' کی صدا جو زمیں پر بپا تھی
وہ ''لا'' کی صدا جو فلک کے
کناروں پہ نوحہ سرا تھی

زمیں سے فلک تک
اسی اک صدائے قضا کا فسوں تھا
وہ شہروں پہ پھیلا ہوا کوئی دشت جنوں تھا
جو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا

;;;;;

Friday, December 4, 2009

64-کب چراغوں کی

;;;;;

کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں
روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں














سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی
اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں

ایک خوشبو سی کسی موسم ِ نادیدہ کی
آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں

یہ جو بنتا ہے اجڑتا ہے کسی خواب کے ساتھ
ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے ان ہاتھوں میں

نقش کچھ اور بنائے گئے سب چہروں پر
بھید کچھ اور چھپائے گئے سب ذاتوں میں

شاعری،خواب،محبت، ہیں پرانے قصے
کس لیے دل کو لگائے کوئی ان باتوں میں

ہفت خواں یوں تو ملے عشق کے اس رستے پر
ہجر ہی منزل ِ مقصود ہوئی ، ساتوں میں

دست بردار ہوئے ہم تو تمناؤں سے
عمر گزری چلی جاتی تھی مناجاتوں میں

;;;;;