Thursday, December 17, 2009

92- خوشبو سے بہلائے

;;;;;

ہم تو بس اک موجہء خوشبو سے بہلائے گئے
اور تھے وہ پھول جن کو رنگ پہنائے گئے

پھر ہوائیں کچھ عجب سرگوشیاں کرنے لگیں
اس سے پہلے دل کو چھو کر شام کے سائے گئے

اس خیال ِ جانفزا سے آشنائی جب ہوئی
پھر کبھی ہم اپنی قربت میں نہیں پائے گئے

دیر تک الجھے ہوئے بالوں میں دل الجھا رہا
پیش ِآئینہ بہت سے ہجر دہرائے گئے

کس طرح کی بستیاں تھیں راہ کے دونوں طرف
کون تھے وہ لوگ جو اس راہ پر آئے، گئے

شہر سے سارے پرندے کر گئے ہجرت اگر
پھر بھلا کیوں موسموں کے جال پھیلائے گئے

کس ستارے سے اتر کر آ رہی ہے یہ مہک
کس زمیں سے اس زمیں پر پھول برسائے گئے

ایک چٹکی سرخ سے گلنار ہے سارا افق
ایک مٹھی سبز سے ،بن سارے سبزائے گئے

جگمگا اٹھے تھے سب ہی دیوتاؤں کی طرح
جب یہ پتھر چاند کی کرنوں سے نہلائے گئے

جانتے ہیں خوب اُس مہماں سرائے دل کو ہم
ہاں کبھی ہم بھی وہاں کچھ روز ٹھہرائے گئے

تھا یہی عشق و غم ِدل کا فسانہ ، گر کبھی
دور افتادہ زمانوں کے سخن لائے گئے

;;;;;

No comments: