Saturday, December 5, 2009

66- ہوائے خواب اڑا

;;;;;

ہوا کے دوش پہ کوئ نگر بسا ہوا ہے
کہ بادلوں میں کہیں کوئ گھر بسا ہوا ھے
عجیب راستہ ہے دھند لکے میں چلتا ہوا
چلا ہی جاتا ہے ہر دل ادھر مچلتا ہوا
نشانیاں سی افق پر عیاں نظر آئیں
کلس دکھائ دیے، برجیاں نظر آئیں

پھر ایک شہر کھلا ایسے چشم حیراں پر
کہ جیسے وہم سا پھیلا ہوا نمایاں پر
زمین سرخ پہ صد رنگ گل مہکتے ہوئے
فضائے سبز میں تارے کئی چمکتے ہوئے
عجیب سحر ہے جس سے مہک رہی ہے ہوا
یہ کیسا نشہ ہے جس سے بہک رہی ہے ہوا
ہیں ہوش مند کہ بے ہوش ہیں یہاں کے مکیں
پیے بغیر ہی مد ہوش ہیں یہاں کے مکیں

سبھی ہیں نام لبوں پر کوئ سجائے ہوئے
سبھی ہیں سینے سے تصویر اک لگائے ہوئے
کوئ خلاؤں میں تکتا گزرتا جاتا ہے
کوئ خموشی سے اک آہ بھرتا جاتا ہے
کہیں کسی سے الجھ کر گرا کوئ شاید
کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا کوئ شاید

سب ایسے ٹوٹ کے بکھرا کوئ گماں جیسے
بنا ہو تاش کے پتوں کا اک مکاں جیسے
نظر کے سامنے اک دشت زرد پھیلا ہوا
جو دل ٹٹول کے دیکھا تو درد پھیلا ہوا
ہوا کے دوش پہ جیسے نگر بسا ہی نہ تھا
کہ بادلوں میں کہیں ایک گھر بسا ہی نہ تھا
خبر نہیں کہ نظارے وہ کس طرح دیکھے
وہ دھوپ اور ستارے وہ کس طرح دیکھے

ہوائے خواب اڑا لے گئ کسی جانب
کہ موج درد بہا لے گئ کسی جانب

;;;;;

No comments: