Thursday, December 17, 2009

95-راستے پر خطر تو آئے

;;;;;

نہیں تھی آسان منزل ِ عشق، راستے پر خطر تو آئے
حدود ِ سود و زیاں سے پھر بھی کسی طرح سے گزر تو آئے

لدی ہوئی ہیں ہوائیں اب بھی پرانی یادوں کی خوشبوؤں سے
کبھی کبھی راہ بھول کر ایک نرم جھونکا ادھر تو آئے

کوئی نہ پوچھے کہ آنے والے سفر میں کن منزلوں سے گزرے
علاقہء غیر سے تو نکلے ہیں، شام سے پیشتر تو آئے

زمین اک نور ِزندگی سے سبھی کا مرکز بنی ہوئی ہے
فلک کے حصے میں گو ہزاروں نجوم و شمس و قمر تو آئے

اگر وہ ناراض بے سبب ہے تو دل ہمارا بھی کم طلب ہے
نہ حال پوچھے دکھائی ہی دے، نہ پاس آئے نظر تو آئے

کتاب میں دل نہیں لگا تو کوئی نئی فلم ہی لگائیں
کسی بہانے یہ شب تو گزرے کسی طرح سے سحر تو آئے

نہیں کہ اس آنکھ میں ہمیشہ اداسیاں، رت جگے ملیں گے
ہزار پیکر سجے ملیں گے ذرا مرا خواب گر تو آئے

مجال کیا گردِ راہ کی ہے، اتر کر آ جائیں گے ستارے
قدم ٹھہر جائیں گے ہواؤں کے، راہ میں تیرا گھر تو آئے

یہ باقی ماندہ جو زندگی ہے ، گزر نہ جائے نباہنے میں
پھر اس کی باتوں میں آکر اس سے اک اور پیمان کر تو آئے

اداس ہوں گے قدیم ساحل، نراس ہو جائے گا کبھی دل
نئے جزیروں کے ساحلوں پر نئی لگن میں اتر تو آئے

بسے بسائے گھروں سے اٹھ کر بس ایک ہی پل میں چل پڑیں گے
نہ ساتھ کچھ زادِ راہ لیں گے، ذرا وہ وقت ِسفر تو آئے

;;;;;

2 comments:

muzafarmohsin said...

A Very Very Nice Poetry....And I Like It......Hafiz Muzaffar Mohsin

hayat said...

THANKS.