Saturday, December 5, 2009

67-یہ مسافر













;;;;;

عمر کی سانولی سہ پہر کے کنارے
گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر
مسافر ۔۔۔ بہت سخت حیراں کھڑا ہے
کہ جس طرح بے انت رستے نے
اس کے قدم لے لیے ہیں

ہوا کی عمودی گزرگاہ پر ایک پتھر کی صورت
کبھی آسماں پر سیاہی میں ہلکی سی سرخی کے
اس میل کو دیکھتا ہے
کبھی دور تک دھوپ اور چھاؤں کے
چمپئی کھیل کو دیکھتا ہے
کبھی ہمکلامی کی خواہش سے بیتاب
اور دوسرے پَل ۔۔۔ بس اک لمسِ بے ساختہ کا
حسیں خواب

گہری خموشی کے بے انت میں
زرد تنہائی میں
اور عمروں پہ پھیلی ہوئی ۔۔۔ بے تمنائی میں
سادہ دل ۔۔ سادہ رُو ۔۔ تشنہء آرزو ۔۔۔ اک مسافر
جو عمر ِگریزاں کی اِس سہ پہر کے کنارے
گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر
بہت خوش تمنا کھڑا ہے
اگر دیکھ پاتا کبھی ۔۔۔ اولیں صبح کی وہ گلابی
اگر دیکھ پاتا ۔۔۔ دہکتی ہوئی دوپہر آفتابی

;;;;;

No comments: