Thursday, December 17, 2009

81-لیلٰی لیلٰی

;;;;;

خیمے میں چراغ جل رہا ہے
آئینے پہ چھائی ہے سیاہی
سب نقش و نگار کھو گئے ہیں
دھندلا ہے وجود کا یہ سایا
اپنی ہی نگاہ سے چھپا کر
کس شکل کو ڈھونڈتی ہے لیلٰی

اس دشتِ فراق ِ آرزو میں
اتری ہے ہمیشہ رات لیکن
یہ آج کی رات کچھ عجب ہے
خاموش ہیں پہرے دار سارے
گل ہیں سبھی مشعلیں زمیں پر
سوتے ہیں فلک پہ سب ستارے



اک موج ِ ہوا کے ساتھ ہر پل
آتی تھی حدی کی تان پہلے
اب تو وہ صدا بھی دم بخود ہے
وہ باد ِ شمال جس کے دم سے
ہو جاتا تھا خوشگوار صحرا
وہ نرم ہوا بھی دم بخود ہے

اس دشتِ ملال ِ آرزو سے
کچھ دور ہیں زندگی کی راہیں
یہ کیسا غبار ہے کہ جس میں
وہ شہر ِ جمال ِ یار گم ہے
پاؤں سے لپٹ گئی مسافت
اٹھتے ہیں بدن میں کیا بگولے
آنکھوں میں ٹھہر گیا اندھیرا
امید کا ہر دیار گم ہے

اک خواب کی آرزو میں نکلی
اور نیند کی آس توڑ آئی
لے آئی شبیہ ِ یار لیکن
آنکھوں کو وہیں پہ چھوڑ آئی
اب سارے جہان سے چھپا کر
کس شکل کو ڈھونڈتی ہے لیلٰی

ملبوس میں اب نہیں وہ خوشبو
آواز سے کھو گیا وہ جادو
دل میں ہے مگر وہی تمنا
تن کا ہے مگر وہی تقاضا
اپنے ہی وجود سے الجھ کر
کس درد سے ٹوٹتی ہے لیلٰی

کیسی ہے بدن میں بیقراری
آرام نہیں کسی بھی پہلو
کانوں پہ رکھے ہیں ہاتھ لیکن
اک شور مچا ہوا ہے ہر سو
کیا عکس نے یہ صدا لگائی
یا دیتا ہے آئنہ دہائی

لیلٰی! ترا وقت کھو چکا ہے
لیلٰی! ترا دشت لٹ گیا ہے
لیلٰی! ترا باغ جل رہا ہے

;;;;;

No comments: