Thursday, December 17, 2009

77-عشقین

;;;;;

مرے محبوب
مجھ کو تیرے دشمن سے محبت ہے

مجھے معلوم ہے یہ اعترافِ جاں گسل سن کر
تری غیرت کے دریا میں بہت طوفان اٹھے گا
تری رگ رگ میں بہتے خوں میں
وحشت سے ابال آنے لگے گا
اور ترے اندر جو خوابیدہ ہے صدیوں سے
وہ وحشی، ابتدائی اور قدیمی مرد
اک جھٹکے سے جاگے گا
تڑپ اٹھے گا اور اپنی نیام ِجاں سے ۔۔۔ نفرت کی
کوئی متروکہ تیغ ۔تیز کھینچے گا
کہ اک ہی وار میں یہ بے وفا سر
بے حیا تن سے جدا کر دے

مجھے یہ علم کب تھا
زندگی کے خوب صورت راستے میں
اس طرح نا آشنا ۔۔۔ نا مہرباں اک موڑ آئے گا
دل وجاں سے میں تیری تھی
تری آنکھوں، تری بانہوں، ترے دل میں
بہت ہی عافیت میں جان میری تھی
سنہرے جسم سے تیرے ۔۔۔ مجھے بھی والہانہ عشق تھا
چاہت بھری باتوں میں تیری لذتِ آسودگی تھی
جسم و جاں کی پوری سچائی سے لگتا تھا
مری دنیا مکمل ہے

اچانک ایک شب
اک محفل ِرنگیں میں میرا سامنا اُس ہوا
اس دشمن ِجانی سے تیرے
اب جو میرا دشمن ِجاں ہے ۔۔۔
مگر کچھ پیشتر، میں اک طرف بیٹھی تھی اپنے دھیان میں
اک لمپ کی کم روشنی میں ۔۔۔ گوشہء خاموش و بے امکان میں
جب اپنے چہرے پر ان آنکھوں کی تپش محسوس کر کے
میں نے اس کی سمت دیکھا تھا
وہ لمحہ ۔۔۔ آہ وہ لمحہ
وہ میری زنگی کا دلنشیں اور بد تریں لمحہ
کہ جب میری نظر اس کی سیہ آنکھوں سے لپٹی
سانولے چہرے سے ٹکراتی ہوئی
پیاسے لبوں پر جا رکی
لیکن اسی لمحے میں میری روح کھنچ کر آ گئی تھی
میری آنکھوں میں
نجانے کتنی صدیوں سے
مری جاں کے نہاں خانوں میں پوشیدہ تھی ایسی تشنگی
میں جس سے یکسر بے خبر تھی

وائے قسمت ۔۔۔ اس بھری محفل میں، میں نے
اپنے تن کی تشنگی کا ۔۔۔ اپنے دل کی ایسی تنہائی کا نظارہ کیا
وہ دل ۔۔۔ جو اب تک تیری الفت میں دھڑکتا تھا
ترے دشمن کے تیرِ عشق سے گھائل پڑا تھا

جانتی ہوں
یہ کہانی سن کے تیرے دل پہ کس درجہ قیامت ٹوٹتی ہے
تیری نس نس میں کئی چنگاریاں بھرنے لگی ہیں
انتقام ۔۔۔ اک سانپ بن کر تیرے خوں میں ناگتا ہے
پر نئی تہذیب سے روشن تری آنکھیں ۔۔۔ بہت خاموش ہیں
چہرہ بہت ہی پر سکوں ہے
ذہن ۔۔۔ جو گزری ہوئی ان بیس صدیوں کے کئی دانش کدوں
اور تربیت گاہوں سے چَھنتے نور سے معمور ہے
تجھ کو کسی بھی انتہائی فیصلے سے روکتا ہے

انتہائی فیصلے سے روکتی ہے
میری عقل ِناتواں مجھ کو
دل ِوحشی مگر رکتا نہیں ۔۔۔ یہ کیا قیامت ہے
مرے محبوب
اس کو تیرے دشمن سے محبت ہے

;;;;;


No comments: