Wednesday, December 16, 2009

69-وہ ہی قاتل مرا

;;;;;

دوستی دشمنی ایک ہی شخص سے، وہ ہی دلدار ہے وہ ہی قاتل مرا
چشم بے تاب ہے، جسم بے خواب ہے، دل تو آگے ہی تھا نیم بسمل مرا

سنسناہٹ سی کیسی فضاؤں میں ہے وسوسے ہیں ہواؤں کی آٓواز میں
تھامتی ہوں بہت روکتی ہوں بہت، ڈوبتا جا رہا ہے مگر دل مرا

جھاگ اڑاتی ہوئی موج در موج میں ڈوبتی اور ابھرتی ہے ناؤ مری
دور ۔ ۔ ۔ حد نظر سے ذرا فاصلے پر کہیں مسکراتا ہے ساحل مرا

ہمسفر! پھر بھی اچھی طرح سوچ لو، بس چراغ ِتمنا مرے پاس ہے
منزلیں بھی کچھ اتنی یقینی نہیں، راستہ بھی زیادہ ہے مشکل مرا

ان درختوں کے گہرے گھنے جھنڈ سے ایک رستہ نکل کر چلا اُس طرف
اک کنواں پھر شجر، پھر وہ پکی سڑک، پھر نظر آئے گا سنگ ِمنزل مرا

سرمئی شام کے سائے ڈھلنے کو ہیں تہہ بہ تہہ ابر کے پر سمٹنے کو ہیں
رات کے شبنمیں سرد رخسار پر اب چمکنے کو ہے ماہ ِ کامل مرا

زندگی، روشنی، خواہشیں، لذتیں چھوڑتا ہے بھلا کون کس کے لیے
کس قدر خام تھا وہ ارادہ ترا اور بھروسا تھا کس درجہ باطل مرا

کیا غبار ِطلب سے کوئی نعرۂ عشق، آواز ِپا تک ابھرتی نہیں
دشت ِامید میں منتظر ہیں کہیں، سبز خیمہ مرا، سرخ محمل مرا

میرے بس میں کہاں خواب اور آرزو، خواب اور آرزو دسترس میں کہاں
سرسراتی ہوئی ریت پاؤں تلے اور ہواؤں کی زد پر ہے حاصل مرا

;;;;;

No comments: