Saturday, December 5, 2009

68-جنموں کی تقدیر لے کر

;;;;;

کئی سرد جنموں سے اک عمر لے کر
کئی زرد عمروں سے جاگی ہوئی ایک عورت
جو بے خوابیوں سے فقط خواب بُنتی ہے
اور وصل کے گلستاں سے فقط ہجر چُنتی ہے
دھندلائے رستوں پہ ۔۔۔ بے حد کی جانب رواں
موتیوں کی طرح اشک ۔۔۔ سب راستوں پر گراتے ہوئے
اپنی غزلائی آنکھوں سے
پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتی

راستوں کے دھندلکوں میں بہتا ہوا وقت
شہر اور جنگل کی وحشت
زمیں پر ستاروں کے سائے
فلک پر کھلے پھول
ساری فضاؤں‌ میں یادوں کی خوشبو
زمانے کی آنکھوں میں حیرت
بہت پُر ستائش نگاہیں
کئی گرم بانہیں ۔۔۔ کئی سرد آہیں

مناظر کسی فلم کی طرح ۔۔۔ تیزی سے
آنکھوں کے پردے پہ چلتے ہیں
ساری زمیں اس کے سوئے ہوئے نرم قدموں کے نیچے
کہیں دور تک بہتی جاتی ہے
اور ذات کے اسم ِخاموش سے
اک خموشی کے متروکہ در کھلتے جاتے ہیں
رستوں میں رستے بدلتے ہیں
سب حادثے ۔۔۔ اپنی باری سے آتے ہیں ۔۔۔ جاتے ہیں

اک عمر میں، کتنے جنموں کی تقدیر لے کر
نگاہوں میں ہستی کی تصویر لے کر
وصال ِمکمل کی تعبیر لے کر
یہ عورت
اسی ہجر کے بے نہایت میں کھو جائے گی
جاگتے جاگتے ۔۔۔ خواب ہو جائے گی

;;;;;