Thursday, December 17, 2009

86-امتحان سے ہم

;;;;;

کچھ ایسے گزرے ہیں عشق کے امتحان سے ہم
نکل کر آئے ہوں جیسے اک داستان سے ہم

قبول کر تو لیے تھا سادہ دلی میں ہم نے
مگر نہ بہلیں گے عمر بھر تیرے دھیان سے ہم

کبھی حیا ہے، کبھی انا ہے طلب میں حائل
وجود اپنا ہٹائیں گے درمیان سے ہم

رہیں گے سچائی کے سپید و سیہ میں کیسے
گزر کر آئے ہیں رنگنائے گمان سے ہم

کوئی بلاتا ہے نوری صدیوں کے فاصلوں سے
کبھی تو آزاد ہوں گے اس خاکدان سے ہم

گلاب کی شاخ سے نہیں کیکٹس نکلتے
تو غم اٹھاتے ہیں کس لیے تیرے دھیان سے ہم











پڑا ہے فٹ پاتھ پر ہوا کا قدیم جھونکا
چلے ہیں منزل کو یاد کے اس نشان سے ہم

سرکتی جاتی ہو دل سے کوئی چٹان جیسے
ہٹا رہے ہیں کسی کا غم ، جسم و جان سے ہم

نجانے کب اگلا پاؤں ہم ان کے پار رکھ دیں
گزر رہے ہیں ابھی زمان و مکان سے ہم

کچھ اس طرح سر کشیدہ رہتے ہیں فکرِ فن میں
کلام کرتے ہوں جس طرح آسمان سے ہم

;;;;;

No comments: