Thursday, December 17, 2009

80-سحر ِ سامری

;;;;;

آسماں گنگ
زمیں ششدر ہے
زندگی اپنے گمانوں کی اسیر
مجھ سے خود اپنا پتہ پوچھتی ہے

اس سیہ خانہء دوراں میں کہیں
نور کی کوئی کرن ہے کہ نہیں
ہے کسی چشم ِ مروت میں دھڑکتا امکاں
یا کسی دل میں کوئی جائے اماں
پاؤں کے نیچے سرکتی ہوئی ریت
ایک دلدل میں بدلتی ہوئی ریت

کوئی محرم، کوئی ہمدم، کوئی دوست
کون موجود ہے ۔۔۔ کیا نا موجود
اجنبی چہروں کا سیلاب ہے اور آوازیں
جیسے اک خواب ِ پریشاں میں کوئی خواب ہے
اور آوازیں
دور سے نام مرا لیتی ہیں اور ہنستی ہیں
کوئی تضحیک ہے ۔۔۔ یا خوف ہے ۔۔۔ یا وہم ہے یہ
اپنی آنکھوں میں سیہ سایا لئے
اور ہونٹوں پہ طلسمی منتر
رسیاں پھینک رہا ہے کوئی
سانپ بنتے ہیں مرے چاروں طرف
تیز ہوتی ہے ادھر ورد کی لےَ
کچھ لہو رنگ شرارے سے اچھلتے ہیں
مرے چاروں طرف

میرے کِیسے میں نہیں ردِ طلسم
میرے ہونٹوں پہ کوئی اسم نہیں
زندگی صرف گمانوں کی اسیر
آسماں گنگ ہے
ششدر ہے زمیں

;;;;;

No comments: