کیا بکھر جائیں گے نظمائے ہوئے یہ کاغذ - یا کسی دست ملائم سےسنور جائیں گے؟ کیا ٹھہر جائیں گے اس لوح پہ سب حرف مرے ۔ یا مرے ساتھ زمانے سے گزر جائیں گے؟ زندہ رہ جائیں گے تعبیر محبت بن کر ۔ یا مرے خواب مرے ساتھ ہی مر جائیں گے؟
ثمینہ راجہ شاعری کے جملہ محاسن سے پوری طرح آگاہ ہیں اور حیرت انگیز طور پر ان پر ان کی پوری گرفت بھی ہے! وہ شعرا کی اس مختصر ترین تعداد سے تعلق رکھتی ہیں جو فن پر پورا عبور رکھتی ہے۔ جہاں تک شعری موضوعات کا تعلق ہے،ان کی شاعری میں ذات کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کے رنگ بکھرے ہوۓ ہیں،جن پر محبت کا جگمگاتا ہوا رنگ غالب ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بے پناہ تخلیقی وفور کے با وجود،وہ خود اپنی شاعری کی کڑی نقاد ہیں اور ضرورت سے زیادہ آواز بلند نہیں کرتیں۔ اوزان و بحور پر مکمل گرفت،خوب صورت ترین آہنگ،شدید حساسیت اور جدید حسیت ان کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تمام تخلیقات جادو کا سا اثر رکھتی ہیں اور ان میں روح عصر کی دھڑکن صاف طور پر سنائ دیتی ہے
احمد ندیم قاسمی
ثمینہ اس وقت شاعری کی اس منزل پر ہیں جہاں آدمی مدتوں کی صحرا نوردی کے بعد پہنچتا ہے۔ وہ نظم اور غزل دونوں میں اتنی خوب صورت شاعری کر رہی ہیں کہ آج انگلیوں پر گنے جانے والے گنتی کے شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان میں خواتیں شعرا اور مرد شعرا کی تخصیص نہیں، بلکہ سارے شعری طبقے میں ان کا ایک الگ مقام بن چکا ہے۔ شاعری بہت مشکل چیز بھی ہے اور بہت آسان بھی۔ آسان اس لیے کہ بے شمار شاعر ہر طرف آپ کو نظر آئیں گے۔ مگر مشکل اس وقت ہو جاتی ہے جب اتنی بڑی تعداد میں لکھنے والی مخلوق موجود ہو اور اس میں اپنا ایک الگ تشخص اور قدوقامت قائم کیا جا ۓ۔ اور اس میں ثمینہ کو نہ صرف کامیابی ہوئ ہے بلکہ وہ ان سب سے آگے نظر آتی ہیں۔ شاعری کے علاوہ ان میں ایک اور وصف بھی ہے کہ کئ ادبی رسائل کی مدیر ہیں اور اس میں کوئ شک نہیں ان ہی کی وجہ سے ان رسالوں کا وقار بلند ہوا ہے ۔
احمد فراز
HUWAIDA
ہویدا
میں شعرکیوں کہتی ہوں، نہیں جانتی ۔ اس کے لیے میرے پاس کوئی جواز نہیں ہے ۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اور پہلی مرتبہ آنکھیں کھول کر خود کو دیکھا تو منکشف ہوا کہ میں پیدائشی طور پر کچھ چیزوں کی اسیر ہوں ۔ زندگی، شاعری، محبت اور غم ۔ زندگی، جو ایک بار ملتی ہے اور کئی بار بسر ہوتی ہے ۔ جتنی ستم شعار ہے اتنی ہی عزیز ۔ زندگی، جس طرح وہ میرے ساتھ پیش آئی ۔ شاعری، جب اترتی ہے تو اپنے ساتھ نہا لے جاتی ہے ۔ پاؤں اکھڑ جاتے ہیں ۔ سانس پھول جاتی ہے ۔ شاعری، جس طرح وہ مجھ پر نازل ہوئی۔ محبت، جو آدمی کی کایا پلٹ دیتی ہے ۔ اپنے سوا کچھ یاد نہیں رہنے دیتی ۔ جینے دیتی ہے نہ مرنے دیتی ہے ۔ محبت، جس طرح وہ میرے وجود پر چھائی رہی ۔ اور غم، جس کے حضور میں سراپا سپاس ہوں ۔ غم، جو گہرے پانیوں میں لے جاتا ہے ۔ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ۔ باقی سب کچھ محو کر دیتا ہے ۔ غم، جس طرح وہ ہمیشہ میرے دل کے گرد لپٹا رہا ۔ ہرشخص عمر کے کسی نہ کسی حصے میں خواب ضرور دیکھتا ہے اور سچائی سے پیار ضرور کرتا ہے ۔ مگر میں نے پوری عمر، سچائی کے عشق میں اور خواب کی کیفیت میں بسر کی ہے ۔ اگر کبھی کوئی سچ مجھ پر ہویدا ہوتا ہے، تو وہ بھی ایک خواب ہی لگتا ہے * ثمینہ راجہ
SHEHR E SABA
شہرسبا
پوری طرح یاد نہیں کہ وہ کون سا موسم تھا، جب پہلی بار اس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر مہربان ہوئی ۔ بس اتنا یاد ہے، میں بہت تنہا تھی ۔ انسانوں سے بھری ہوئی دنیا میں، رشتوں ناتوں سے بھرے ہوئے گھر میں، مین تنہا تھی ۔ اور مین سوال کرتی تھی ۔ بہت سوال، اپنے آپ سے ۔ اور مین زندگی کو عجب شے خیال کرتی تھی ۔ ایک بے چین تلاش تھی میرے اندر، معلوم نہیں کی ۔ ایک کھَولتا ہوا عشق تھا، پتہ نہیں کس سے ۔ ایک جاں کیوا فراق تھا، خبر نہیں کس کا ۔ اس عالم ِ وحشت میں آدمی یا تارک الدنیا ہو جاتا ہے، یا شاعر ہو جاتا ہے ۔ سو میرے نصیب کہ خواب کے یا بیداری کے کسی الوہی لمحے میں، اس نے مجھے اپنے لیے چن لیا ۔ شاعری نے اس نے میرے تپکتے ہوئے دل پر اپنا ٹھنڈک سے بھرا شبنمیں ہاتھ رکھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہر جاگتا ہوا ذہن ،سوال کرتا ہے ۔ ہر دھڑکتا ہوا دل، نحبت کرتا ہے ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہر آدمی کی ایک تلاش ہوتی ہے ۔ ایک عشق ہوتا ہے ۔ ایک فراق ہوتا ہے ۔ ہر آدمی کا ایک شہرِسبا ہوتا ہے ۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے میرے شہرِسبا کی طرف لے گئی * ثمینہ راجہ
AUR WISAL
اور وصال
شاعری، دریافت کا عمل تو ہے مگر بہت شعوری عمل نہیں جب ایک بحر میں یہ غزلیں پہلے پہل شائع ہوئیں تو احباب نے ان کو ایک فنی تجربہ قرار دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ 95ء اور96ء پورے دو سال کے دوران یہ بحر مجھ پر بری طرح طاری رہی ۔ سو میں نے یہ تمام غزلیں اورزیادہ تر نظمیں بھی اسی بحر میں لکھیں ۔ یہ ایک اچانک اور بے اختیار عمل تھا ۔ جبکہ ہیئت کا تجربہ شائد ایک شعوری عمل ہوتا ہے۔ زندگی کا کوئی تجربہ جب شعر میں ڈھلتا ہے تو وہ تجربہ ہوتے ہوئے بھی تجربہ نہیں رہتا ۔ یعنی مرئی نہیں رہتا، غیرمرئی ہو جاتا ہے ۔ جیسے حقیقت میں صحرا عبور کرنا، یا دریا پار کرنا، یا جنگل سے گزرنا، یا محبت کرنا، یا مر جانا بھی تجربہ ہے ۔ اور خواب میں صحرا عبور کرنا، دریا پار کرنا، جنگل سے گزرنا، محبت کرنا اور مر جانا بھی تجربہ ہے ۔ پھر بھی دونوں میں واضح فرق ہے ۔ سو زندگی اگر حقیقت کا تجربہ ہے تو شاعری خواب کا ۔ خواب کے اسرار نے انسان کو جسم سے ہٹ کر روح کے بارے میں سوچنے پر آمادہ کیا ۔ اور شاعری کے اسرار نے اسے کبھی دیوتاؤں کی رضا (ہومر) اور کبھی پیغمبری کا جزو (مولانا روم) بنا دیا۔ میں نہیں جانتی جو میں لکھ رہی ہوں، یہ فن ہے یا نہیں ، تجربہ ہے یا نہیں ۔ میں تو اتنا جانتی ہوں کہ میں وہ بتا رہی ہوں جو زندگی نے مجھے سکھایا ہے ۔ اور وہ سنا رہی ہوں جو شاعری نے میرے کان میں پھونکا ہے ۔ پڑھنے اورسننے والے اسے کیا سمجھتے ہیں، کیا مقام دیتے ہیں، یہ ان کا مسئلہ ہے ۔ محبت کی طرح شاعری بھی اپنا اپنا مسئلہ ہے * ثمینہ راجہ
KHWABNA'AY
خوابنائے
میں یہ نہیں بتانا چاہتی کہ کوئی شخص شاعر کیسے ہو جاتا ہے ۔ میں تو بس یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کبھی تم نے گرمیوں کی دوپہروں میں آسمان کا رنگ دیکھا اور فاختہ کی لمبی، نڈھال آواز سنی ہے ۔ ۔ ۔ گھو گھو ۔ ۔ ۔ گھو ۔ خزاں کی سہ پہروں میں، جنگلوں میں سنسناتی ہواؤں کو محسوس کیا اور درختوں کی کراہیں سنیں ۔ سرما کی گہری سیاہ غم ناک شامیں، گھر کے پچھلے باغ میں تنہا بیٹھ کر گزار دیں ۔ رات کے پہلے پہر، ڈار سے بچھڑ جانے والی کونج کی چیخ سنی ہے ۔ آخری پہر کبھی چونک کر جاگے اور اپنے سر پر کسی نادیدہ پرندے (یا فرشتے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ محسوس کی ہے ۔ صبح ِ کاذب کے وقت، فلک پر ایک نقرئی غبار دیکھا ہے ۔ صبح ِ صادق کے وقت، چڑیوں کی حمد کے ساتھ، ملحقہ مسجد سے ابھرتی '' فاتحہ'' یا ''الرحمٰن '' سنی ہے؟ ۔ اگر نہیں ۔ تو تم مجھے کبھی نہیں جان سکتے * ثمینہ راجہ
BAGH E SHAB
باغ شب
کوئی شخص تھا ۔ اُس نے ایک عمرجس تنگ و تاریک حجرے میں گزار دی، اُس کے پچھواڑے کھلنے والی کھڑکی کبھی نہیں کھولی ۔ حالانکہ وہ کھڑکی ایک خوب صورت باغ میں کھلتی تھی ۔ کیونکہ اس شخص، اس بے نیاز، اس درویش کے اپنے باطن میں ایک باغ کِھلا تھا ۔ کیونکہ وہ شخص ' میر' تھا ۔ شاعر شاعر بھی سب آدمیوں جیسا ایک آدمی ہی ہوتا ہے ۔ لیکن شاید اُس کا خمیر تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے ۔ شاید اس کے اجزائے ترکیبی میں ایک عنصر کم ہوتا ہے، یا ایک عنصر زیادہ ۔ کیونکہ اس کے اندر کبھی کبھی ایک لہر سی اٹھتی ہے، ایک ہوا سی چلتی ہے، ایک باغ سا کھلتا ہے ۔ راتوں کو جب ساری دنیا گہری نیند میں ہوتی ہے، وہ چونک کر جاگ اٹھتا ہے ۔ اسے زمین اور آسمان کے درمیان پھیلی ہوئی خاموشی میں ایک دھمک سنائی دینے لگتی ہے ۔ جیسے دل کے ساتھ ساتھ پوری کائنات دھڑک رہی ہو ۔ اور اس کے اندر ایک عجیب سرسراہٹ ہونے لگتی ہے ۔ پھیلنے لگتی ہے، آہستہ آہستہ، نس نس میں، پور پور میں ۔ پھر آسمان کے پوشیدہ منّور گوشوں سے، شاعری اس کے دل پر اترتی ہے ۔ اور اس کے باطن میں ایک باغ کھل اٹھتا ہے ۔ خوابوں کا، یادوں کا، زخموں کا، شاعری کا باغ ۔ جیسے میں رہتی ہوں، خوابوں کے ساتھ، یادوں کے ساتھ، زخموں کے ساتھ، شاعری کے ساتھ، باغ ِ شب میں ۔ ہر شاعر کی طرح، مغموم، سرشار
ثمینہ راجہ
BAAZ DEED
بازدید
زندگی کے سفر کے دوران، بہت سی خواہشیں اور آرزوئیں پچھلی منزلوں پر رہ جاتی ہیں یا کھو جاتی ہیں ۔ افسوس، زندگی کا راستہ ہمیشہ عمودی ہوتا ہے ۔ اگر یہ دائرے میں سفر کرتی تو شاید کبھی نہ کبھی، کوئی نہ کوئی اپنی کسی گمشدہ خواہش یا بھولی بسری آرزو کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ۔ تب شاید عمر کی رائگانی کا اتنا ملال نہ ہوتا ۔ شاید پھر پلٹ کر دیکھنے کی مناہی نہ ہوتی ۔ اور شاید پلت کر دیکھنے پر لوگ پتھر نہ ہوتے ۔ لیکن اب تو قانون بھی موجود ہے اور مجھے سزا کا بخوبی اندازہ بھی ہے مگر شاعری جو میری شریانوں میں سنسناتی ہے ۔ میرے دل میں دھڑکتی ہے ۔ مسکراتی ہے اور میرے کانون میں مسلسل سرگوشیاں کرتی ہے ۔ کہ آرزو کا پھول جو میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک جلتے ہوئے راستے پر گر گیا تھا مجھے واپس جا کر مرجھانے سے پہلے اسے اٹھانا ہے ۔ کہ برسوں پہلے پتھر پر جو ایک فیصلہ لکھا گیا تھا مجھے اس کو منسوخ کرنا ہے ۔ کہ میری پشت پر محض چند قدم کی دوری پر تقدیر خندہ زن ہے ۔ مجھے ایک بار پلٹ کر اس پر ہنسنا ہے ۔ کہ مجھے سنگ زاد ہونے سے پہلے ایک جراتِ باز دید کرنی ہے * ثمینہ راجہ
HAFT AASMAN
ہفت آسمان
یہ میرے سفر کا ساتواں سنگِ میل ہے خیال تھا، یہاں پہنچ کر میں دم لوں گی اور اگلی منزل کا تعین کروں گی ۔ مگر افسوس! اس پتھر پر بیٹھ کر احساس ہوا کہ سفر تو ابھی آغاز ہی نہیں ہوا ۔ ابھی تو اس راستے پر قدم ہی نہیں رکھا جو عین منزل تک جاتا ہے ۔ سات کتابیں لکھ ڈالیں، مگر وہ شعر تو کہا ہی نہیں، وہ نظم تو لکھی ہی نہیں جو شاعری کا جواز بن سکے ۔ اردو شاعری میں حضرت امیر خسرو سے آج تک، کیسے کیسے نام کیسا کیسا کام پیش ِ نگاہ ہے ۔ ہفت شہر ِ عشق را عطار گشت ما ہنوز اندرخم ِ یک کوچہ ایم فن کے باب میں قبول ِ عام اور بقائے دوام، دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ کسی کو ایک حاصل ہوتی ہے، کسی کو دوسری ۔۔۔۔۔ بہت کم خوش بختوں کو یہ دونوں نعمتیں ارزانی ہوتی ہیں ۔ مگر کیا شاعر قبول ِعام یا بقائے دوام کی خاطر لکھتا ہے؟ شاعر کے پیش ِ نظر شاعری کے علاوہ کچھ اور ہونا چاہیئے؟ میرا خیال ہے ۔۔۔ نہیں اگر کوئی شاعر ہے تو شاعری ہی اس کی مطلوب و مقصود ہونی چاہیئے ۔۔ دل و نگاہ صرف اسی سے مسحور ۔۔ بدن صرف اسی کا اسیر ۔۔ قلم صرف اسی کے تابع ۔ شاعر کا راستہ، پیغمبروں کا، ولیوں کا، صوفیوں کا راستہ ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ خدا اپنے اسَرار شاعروں کی زبانوں کے ذریعے بھی افشا کرتا ہے * ثمینہ راجہ
PARIKHANA
پری خانہ
اس پری خانہء خیال میں ایک سو پانچ پریاں ہیں، اور پانچ ہیں ان کی شہزادیاں، پانچ بحریں ۔ یہ تقریباً پانچ ماہ میں نازل ہوئیں ۔ اپنی رضا سے، اپنی خوشی سے، اپنی ہی ترتیب سے۔ اس وفور سے کہ ان کے ریشمیں پروں کی سرسراہٹ اور نقرئی گھنٹیوں جیسی چہچہاہٹ سے، زمین اورآسمان کے درمیان جو کچھ تھا، گونج اٹھا ۔ انہوں نے اجنبی پھولوں کی خوشبو کی طرح مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ سنبھلنے کی مہلت ہی نہیں دی ۔ کیا سب ہی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ سب شاعروں کے ساتھ؟ مجھے نہیں معلوم! مجھے تو ایسا لگا جیسے تمام 'میوزز' نے ایک ساتھ پلٹ کر مجھ پر نظر کی اور بس! یہ آنکھیں جگمگا اٹھیں اور اس دل کی فضا قاف کی سی ہو گئی ۔ سنبھلنے کی ذرا سی بھی مہلت ملتی تو مجھے ان پری پیکروں سے کچھ سوال کرنا تھے ۔ یہ کہ کن خوابوں کی تحسین کے لیے انہیں قرطاس پر اتارا جائے؟ کن نظروں کی تسکین کے لیے ان کی تصویر کشی کی جائے؟ کون ہے ان کے جمال کا طلب گار؟ کون ہے ان کے کمال کا پرستار؟ سخن کے بازار میں ایک سے ایک دکان سجی ہے ۔ سب بنا بنایا، ڈھلا ڈھلایا ''برائے فروخت'' کی تختی پیشانی پر سجائے موجود کون دکاندار ہے، کون خریدار، کوئی پہچان نہیں! کون ہوس کار ہے، کون عاشق ِ زار، کوئی امتحان نہیں لیکن حیرت تو یہ ہے کہ ان سوالوں کی اگر مہلت نہیں ملی ، تو نوبت بھی نہیں آئی ۔ کیونکہ یہ پریاں بے حد زیرک و دانا ہیں ۔ جانتی ہیں، جمال و فن کے اس سفر میں انہیں کہاں قیام کرنا ہے ۔ پہچانتی ہیں کس دل میں دکان سجی ہے اور کس دل میں
پری خانہ * ثمینہ راجہ
ADAN KAY RASTAY PAR
عدن کے راستے پر
یہ دنیا ایک پر شور اور پر ہجوم جگہ ہے مگر میری روح تنہا ہے ۔ اور اس کی تہہ میں ایک شعلہ ہے ۔ اس شعلے کی لو جلوت میں دھیمی پڑ جاتی ہے اور خلوت میں اونچی ہو جاتی ہے ۔ بلند تر اور روشن تر۔ میرے دل میں ایک پھول ہے ۔ یہ پھول، ہجوم کی حدت سے مرجھانے لگتا ہے اور تنہائی کی طراوت سے مہک اٹھتا ہے ۔ اس پھول کی خوشبو مجھے ایک باغ کی یاد دلاتی ہے ۔ اس گمشدہ جنت کی یاد، جس سے مجھے میری خواہش کے برعکس، بے دخل کر دیا گیا اور جس کی جستجو ابدالآباد تک میرا مقدر کر دی گئی ۔ یاد پڑتا ہے، وہاں دھند کے روپہلے بادلوں میں ، حیرت زدہ زمین پر میرے ساتھ کوئی تھا کون تھا؟ اور اب کہاں ہے؟ وہ اس دنیا کے زرد راستوں پر ملے گا یا عدن کے سبز راستے پر؟ اس کی تلاش میں خود فراموشی کی طرف جانا ہو گا یا خود آگہی کی سمت پلٹنا ہو گا؟ یہ سوالات میرے لہو میں گونجتے ہیں اور ان سے نظمیں تخلیق ہوتی ہیں ۔ یہ سوالات، ایک فرد، ایک جسم، ایک روح، ایک دل کے سوالات نہیں ہیں ۔ یہ تلاش، ایک فرد، ایک جسم، ایک روح، ایک دل کی تلاش نہیں ہے ۔ یہ سب کے سوالات ہیں ۔ یہ سب کی تلاش ہے ۔ کسی اور جگہ پر رہنا، کسی اور مقام کی جستجو کرنا ۔ اسی اور کے پاس ہونا، کسی اور کی آرزو کرنا ۔ یہی سب کا مقدر ہے مقدر، جسے سب میں سے بیشتر، فراموش کر چکے ہیں ۔ مگر کسی فنکار کو اسے فراموش نہیں کرنا چاہیئے ۔ کسی شاعر کو تو ہرگز نہیں ''A poet,s life should be a true poem'' (Milton) 'شاعر کی زندگی واقعی نظم بن سکتی ہے ۔ لیکن سیرابی سے نہیں پیاس سے ۔ نیند سے نہیں، خواب سے ۔ موجود سے نہیں، ناموجود سے ۔ حاصل سے نہیں، لاحاصل سے ۔ وصل سے نہیں، ہجر سے ۔ 'کاش' سے اور تلاش سے میں خود سے کہتی ہوں ۔ اپنی جنت گم گشتہ کی تلاش اور اپنی گمشدہ ہستی کی جستجو '' ''PARADISE LOST'' سے اس کتاب تک، یہی ہر فنکار کا مسئلہ ہے ۔ یہی ہر فن کا محرک انسانوں کی طرح کتابیں بھی عدم سے وجود میں آتی ہیں ۔ سانس لیتی ہیں ۔ مسکراتی ہیں اور زندگی کی گہما گہمی میں کھو جاتی ہیں ۔ انسانوں کی طرح کتابوں کی پیدائش کا بھی وقت مقرر ہوتا ہے ۔ شاید اسی لیے یہ کتاب جسے ''عدن '' کے نام سے پہلے وجود میں آنا تھا روک لی گئی اور ''پری خانہ'' کو وجود عطا کر دیا گیا ۔ یہ واقعہ میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ مسافر کے کیے اس کے سفر کا ہر سنگ میل اہم ہوتا ہے ۔ ہر قدم اہم ہوتا ہے ۔ کسی اور کے لیے اس کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو یوں بھی یہ دنیا تو ایک پر شور اور پر ہجوم جگہ ہے ۔ جہاں سب میں سے بیشتر نے جدید ترجیحات کی تیز رفتاری میں اپنی قدیم روحوں کو روند ڈالا ہے ۔ انہوں نے اپنے شعلوں کو مدھم پڑنے، اپنے پھولوں کو زردانے کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ اور ان کی اس روش پر میں بہت غم زدہ ہوں ۔ ''کیوں غم زدہ ہوں؟'' میں خود سے پوچھتی ہوں ۔ '' کیا میری روح قدیم ابھی تک زندہ ہے؟'' ثمینہ راجہ
DIL E LAILA
دل لیلٰی
محبت کرنے والے، بہت خوش بخت لوگ ہوتے ہیں ۔ تمام سفر نصیب لوگوں میں سب سے خوش بخت ۔ وابستگی کی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہونے کے سبب ممکن ہے یہ عام لوگوں سے زیادہ اذیت میں بسر کرتے ہوں ۔ لیکن یہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ اعلٰی درجے کے کیف سے بھی نوازے جاتے ہیں ۔ کیونکہ انہیں اپنی پرانی وابستگیوں پر پڑے ہوئے، وقت کے دبیز پردوں کو ہٹانے کے لیے، تمنا کی شدت اور وارفتگی عطا کی جاتی ہے ۔ وہ وابستگیاں جو کہیں پچھلے جنموں میں قائم ہوئیں ۔ فراق و وصال سے بے نیاز، یہ اپنی ہی ذات کے ترفع میں مصروف لوگ ہوتے ہیں ۔ محبت اور اذیت کی مشترکہ یادوں کے طلسمی تاروں سے جڑے ہوئے ۔ ان کی روحیں، کسی الوہی ساز کی وجد آفریں لے پر رقصاں ہوتی ہیں اور ان کے دل سرشاری کی انتہا پر پہنچ کر کائنات کی طرح بے کنار ہو جاتے ہیں ۔ اپنے فن میں ڈوبے ہوئے شاعر، ادیب اور فنکار ان عشاق سے کہیں زیادہ خوش بخت ہوتے ہیں ۔ اپنی مخصوص نظریاتی وابستگیوں کے سبب، ممکن ہے، یہ بھی عام لوگوں سے زیادہ اذیت میں بسر کرتے ہوں ۔ لیکن انہیں بھی عام لوگوں کی نسبت، زیادہ اعلٰی درجے کے کیف سے نوازا جاتا ہے ۔ وقت بڑی سہولت سے، ان کی آنکھوں سے اپنے پردے ہٹا دیتا ہے ۔ اور زمانے ان کےقدموں میں راستوں کی طرح بچھ جاتے ہیں ۔ ستائش اور صلے سے بے نیاز، یہ اپنی ہی ذات کے ترفع میں محو لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں پوری کائنات کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی وسعت ہوتی ہے ۔ اور ان کی روحیں جو الوہی نغمے الاپتے ہیں، ابدیت ان پر رشک کرتی ہے* ثمینہ راجہ
ISHQABAD
عشق آباد
یہ فسانہء عشق نہیں فسانہ ہائے عشق ہے ۔ پہلا حیرت فزا عشق فن سے! جس نے میرے جنم کے ساتھ جنم لیا ۔ جو میرے جذبات و احساسات کا مرکز و محور ہے ۔ میری روح کی سرّیت کا عکس ہے ۔ میرے باطن کے نظاروں کا جمیل ترین اور مکمل ترین نقش ہے ۔ میرے دل کی اولین تمنا اور تمنا کی اولین کشش انگیز صدا ہے ۔ دوسرا عشق، گونا گوں تحیرات سے بھری ہوئی اس دنیا سے! جو ایک معین عرصے کے لیے اس جسم کی قیام گاہ ہے ۔ رہگزر دوراں پر ایک مہمان سرائے ۔ اشیا سے اٹا ہوا بازار ۔ خواہشات سے سجا ہوا ایک صنم خانہ ۔ دھوکے اور فریب سے گونجتا ایک خالی مکان ۔ خاموشیوں سے سنسناتا ہوا ایک تاریک جنگل ۔ تیسرا عشق، اسرار سے پر اپنی ذات سے! جو اس کائنات کا سب سے اہم مظہر ہے ۔ ہر چیز سے عزیز ۔ ہر شے سے اتم ۔ ہر پیارے سے پیاری! میں ہوں تو یہ عالم آب و گل ہے ۔ میں ہوں تو ہر شے، ہر خیال، ہر آواز، ہر وجود با معنی ہے ۔ میں ہوں تو، تو ہے! مگر میں کیا ہوں؟ مجھے تو آج تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ میں کون ہوں ۔ میں وہ نہیں ہوں جو دنیا مجھے سمجھتی ہے ۔ میں وہ نہیں ہوں جو اپنے ظاہری وجود اور ارد گرد پھیلی ہوئی اشیا سے ثابت ہوں ۔ میں وہ نہیں ہوں جو تو مجھے جانتا ہے ۔ میں اپنے باطن میں تحیرات سے بھری ایک دنیا ہوں ۔ زندگی کے لیے ایک مہمان سرائے ۔ ہنگاموں سے پر ایک بازار ۔ خواہشات کا ایک صنم خانہ ۔ فریب سے گونجتا خالی مکان ۔ سنسناتا ہوا تاریک جنگل ۔ میں اپنی ذات میں ایک معمہ ہوں ۔ ایک چیستاں ۔ میں سر تا سر حیرانی ہوں ۔ میں ایک لا مختتم خلا ہوں ۔ بے معنویت کا ایک شعبدہ ۔ اپنے آپ سے نالاں و بیزار ۔ رنجور اور بے قرار! رنجور اور بے قرار ہوں مگر جانتی ہوں کہ میری ذات ہی میں میرا قرار دل و جاں موجود ہے ۔ جو اس معمے کو حل کرتا ہے ۔ اس چیستاں میں راستہ بناتا ہے ۔ اس خلا میں زمان و مکاں ہویدا کرتا ہے ۔ اس بے معنویت کو کسی معجزے سے معانی عطا کرتا ہے ۔ میری نگاہوں پر زندگی، روشنی، حرارت اور رنگ ورامش کے جہانوں کے در وا کرتا ہے ۔ میرے دل کو میرے ہونے کا یقین عطا کرتا ہے اور میں جی اٹھتی ہوں ۔ (اور تو بھی جی اٹھتا ہے ۔ اگر تو بھی ایک فن کار ہے ۔ پھر ہم اپنے آپ سے کہتے ہیں ''ہاں یہ فن ہے، جس نے ہمیں زندگی، روشنی، اور معانی عطا کیے''۔ تو پھر اہم کون ہوا ،ذات، دنیا یا فن؟ عشق کی ہر کہانی میں سارے سوال ایسی ہی مثلث سے جنم لیتے ہیں ۔ لیکن میری مثلث ازلی و ابدی ہونے کے باوجود، روایتی نہیں ۔ کیونکہ میوز، سامر، میں، ایک ہی وجود میں محو عشق اور معرکہ آرا ہیں ۔ بس یہی فسانہ ہے عشق آباد کا! ثمینہ راجہ
HIJR NAMA
خواب
ہم خواب کیوں دیکھیںِ؟ بہت دیکھے ہیں ہم نے خواب ساری زندگی بس خواب ہی دیکھے ہیں ہم نے امن کے۔۔۔لوگوں کی خوشحالی کے۔۔۔سچ کی فتح کے۔۔۔ پھر کیا ملا؟ مگر لوگوں کا کیا ہے ۔۔۔۔ یہ کسی کی کامیابی پر کہاں راضی ہوئے ہیں؟ کامیابی؟۔۔۔ آہ !۔۔۔ پوچھو اُن سے۔۔۔ جن کو اک ذرا سی کامیابی کے لیے ۔۔۔ دنیا سے پنجہ آزمائی کرنی پڑتی ہے کوئی جتنا زیادہ بے مروّت ۔۔۔ بد دیانت۔۔۔ خود غرض اورسنگ دل ہے اُس قدر مطلوبِ دنیا ہے
KITAB E KHWAB
خواب
دشت میں اک طلسم آب کے ساتھ دور تک ہم گئے سراب کے ساتھ ہم سدا کی بجھے ہوئے تھے وہ تھا پہلی سی آب و تاب کے ساتھ رات کی طشتری میں رکھی ہیں میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ
KITAB E JAAN
شہر زاد
نہ شوق ہے، نہ تمنا، نہ یاد ہے دل میں - کہ مستقل کسی غم کی نہاد ہے دل میں - ہے الف لیلہ ولیلہ سی زندگی در پیش - سو جاگتی ہوئ اک شہر زاد ہے دل میں
WOH SHAAM ZARA SI GEHRI THI
انتظار
ایک مدت کے انتظار کے بعد- اس دریچے میں روشنی ہوئ تھی آئنہ کیوں سیاہ لگتا تھا؟ کیا اندھیرے سے میں بنی ہوئ تھی
SAMINA RAJA
فن
کیسے آئے گا زمانہ مجھے ملنے کے لیے - میرے رستے میں تو دنیائے فن آراستہ ہے
SAMINA RAJA
ہجر
خوش ہوں کہ تیرے غم کا سہارا مجھے ملا - ٹوٹا جو آسمان، ستارہ مجھے ملا - کچھ لوگ ساری عمر ہی محروم ِ غم رہے - اک خواب ِ عشق تھا جو دوبارہ مجھے ملا - اِس ہجرمیں شریک تھا تُو بھی مرا تو پھر - کیسے ہوا کہ سارے کا سارا مجھے ملا
SAMINA RAJA
لفظ گری
بات میں تیری لطف تھا آنکھ میں دلبری رہی - شاخ ِ نہال ِ عشق یوں آج تلک ہری رہی - سِحرِ جمال میں رہے، ایک خیال میں رہے - شیشہء دل میں آج تک جیسے کوئی پری رہی - مصحف ِ دل پہ لکھ دیا حرفِ طلائی عشق کا - لفظ گری کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں زر گری رہی
SAMINA RAJA
تنہا
تنہا، سر انجمن کھڑی تھی - میں اپنے وصال سے بڑی تھی - طالب کوئ میری نفی کا تھا - اور شرط یہ موت سے کڑی تھی - وہ ایک ہواےء تازہ میں تھا - میں خواب قدیم میں گڑی تھی - وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا - میں اپنے حضور میں کھڑی تھی
WITH AHMAD FARAZ
صدائے زندگی
صدائے زندگی ہے یہ - کہ ساز ِ سرمدی کی اک صدائے خوابناک ہے - صدائے نور ۔۔۔۔ یا صدائے خاک ہے - ہوائے بے نیاز کو خبر نہیں - شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں
WITH AHMAD NADEEM QASMI
یادوں سے
کہاں ہوں میں کہ سارے لوگ - یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں - لوگ ۔۔۔ سارے لوگ - سارے ۔۔۔ درد میں بھیگے ہوئے اور آس میں لتھڑے ہوئے - سب ۔۔۔ زندگی کو اپنے اپنے ٹوٹتے کاندھوں پہ لادے - منزلوں پیچھے رُکے ہوں گے - رُکے ہوں گے ۔۔۔ پلٹ کر جا چھکے ہوں گے ۔۔۔خدا جانے