Monday, November 16, 2009

59- ڈھلنے کو ہے

;;;;;

تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے
میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے

کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہئے؟
آنکھ بھی خوں ہو گئ دامن بھی اب گلنے کو ہے

گلستاں میں پڑ گئ ہے رسم تجسیم بہار
اپنے چہرے پر ہر اک گل،خون دل ملنے کو ہے

اجنبی سی سر زمیں نا آشنا سے لوگ ہیں
ایک سورج تھا شناسا،وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے

ہر نئ منزل کی جانب صورت ابر رواں
میرے ہاتھوں سے نکل کرمیرا دل چلنے کو ہے

شہر پر طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے آج
حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے

اک ہوائے تند اور ہمراہ کچھ چنگاریاں
خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے

سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب
کاروان انجم و مہتاب بھی چلنے کو ہے

;;;;;

No comments: