Monday, November 9, 2009

51-کچھ خواب کچھ نظمیں


انگشت ِسلیمانی




مرے خواب سچے تھے بچپن سے۔۔۔




گرچہ سلیماں کی انگشتری ہاتھ پر اب بنی ہے۔۔۔ ابھی نامکمل ہے۔۔۔ اور قوسِ وجدانی اب تک دکھائی نہیں دی۔۔۔ مگر یہ کسی نے بتایا تھا۔۔۔''دل میں بہت آگ۔۔۔ تن پر سدا ہجر۔۔۔ ہاتھوں میں انگشتری ہے''۔۔۔
سو دیکھا تو پایا۔۔۔ کہ ہر بات سچی تھی۔۔۔ اس کہنے والے کی۔۔۔ سب خواب سچے تھے بچپن سے میرے۔۔۔ جو سوتے میں اور جاگتے میں۔۔۔ سدا میری آنکھوں نے دیکھے۔۔ ۔ہمیشہ مرے دل نے
سوچے !۔۔۔۔ اگرچہ یہ اک عمر۔۔۔ پوری ہی جل کر ہوئی راکھ۔۔۔ لیکن وہ کچھ حرف۔۔۔ چاندی کے سونے کے پورے ہوئے ہیں۔۔۔ اگرچہ سلیماں کی انگشتری ہاتھ پر اب بنی ہے۔۔۔ ابھی نامکمل ہے۔۔۔ پھر بھی وہ سب خواب۔۔۔ ہونے کے۔۔۔ پورے ہوئے ہیں




خواب-1

بہت دھیمی دھیمی سنہری فضا، دھوپ یا دھند تھی۔۔ میرے اسکول کا سبز میدان جو سو گُنا دور تک پھیل کر، آنکھ کی حد سے اوجھل تھا۔۔ نیلی قمیضوں، سفید آنچلوں کا سمندر مرے سامنے موجزن۔۔ مارچ کی عطر آلود ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے، درختوں سے، پھولوں سے، چہروں سے اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔۔ فضا میں خوشی کی کوئی لہر تھی۔۔ سامنے اونچے اسٹیبج پر، ساری ٹیچرز کے درمیاں، سادہ رُو، سادہ دل ایک بچـّی۔۔ وہ نو سال کی عمر سے چھوٹے چہرے پہ اک بھولپن۔۔ عمر سے کچھ بڑی سوچ آنکھوں میں۔۔ دل میں بہت سخت حیرت تھی۔۔ ہاتھوں میں اک سبز کاغذ اور اُس پر لکھی کوئی تحریر، اک اجنبی سی زباں میں۔۔
وہ تحریر میری زباں سے چلی، اور موجِ‌ ہوا پر کہیں دور بہتی گئی۔۔ سنسناہٹ فضاؤں سے اک راز کہتی گئی۔۔ ساری ٹیچرز کی نرم آنکھوں میں اک فخر۔۔ ہونٹوں پہ ہلکی گلابی ہنسی تھی۔۔ مرے ہاتھ میں سبز کاغذ تھا۔۔ ہلکورے لیتی ہوا سے، سنہری مرے بال تھے۔۔ دھوپ چہرے پہ پھیلی ہوئی تھی




خواب-2

اچانک کسی نے کہا ’’ اُن کے ہاں سے کوئی لوگ آئے ہیں‘‘۔۔۔ اور پھر مرا دل دھڑک کر، بس اک ثانیے کے لیے رُک گیا تھا۔۔ طویل و عریض ایک کمرے میں بس کرسیاں ہی بھری تھیں، بہت اوندھی سیدھی۔۔ لپکتی گئی میں۔۔ ہر اک شے سے ٹکراتی، گرتی، سنبھلتی۔۔ وہ مہمان خانے کی کچھ اجنبی سی فضا اور خموشی۔۔ ذرا خوف، لیکن قیامت کا شوق اور وحشت۔۔ وہ دیوار کے بعد دیوار۔۔ دروازے کے بعد دروازہ۔۔ کوئی نہیں تھا۔۔ وہاں اُن کے ہاں کا تو کیا، اپنے ہاں کا بھی کوئی نہیں تھا۔۔
اچانک بہت خوف محسوس ہونے لگا۔۔ سردیوں کی ذرا ملگجی شام کی کپکپاہٹ میں، پاؤں کے نیچے زمیں رینگنے، سرسرانے لگی۔۔۔ گھر کدھر ہے؟ گلی کس طرف؟ میں کہاں ہوں؟ ۔۔۔ یہ اندازہ کوئی نہیں تھا۔۔۔ بہت سرد تاریک کمرے میں، دیوار کے بعد دیوار تھی۔۔۔ اور دروازہ کوئی نہیں تھا




خواب-3

کوئی اور گھر تھا۔۔ نجانے وہ آیا کہ میں اُس سے ملنے گئی تھی۔۔ درختوں کے سائے میں رستہ تھا۔۔ دو چار کچھ اجنبی سیڑھیاں تھیں۔۔ جہاں ایک دروازہ کُھلتا تھا۔۔ لوہے کا جنگلہ لگا تھا۔۔ اُس اکلوتے کمرے میں، بس زرد سی اک چٹائی بچھی تھی۔۔ بہت دور تک، سبز چمکیلی دھوپ اور خوشبو کِھلی تھی۔۔ کوئی چائے لایا۔۔ چٹائی پہ ہم آمنے سامنے اِس طرح بیٹھے، جاپانی جس طرح سے بیٹھتے ہیں۔۔ دو زانو۔۔ خموشی سے اک دوسرے کو ذرا جھینپ کر دیکھتے۔۔ چائے پیتے۔۔ بہت وقت بیتا۔۔ مرے اک جنم جتنا وہ وقت بیتا۔۔ نہ اک لفظ اُس نے کہا اور نہ میں بول پائی۔۔
ہَوا تیز تھی۔۔ اور چاروں طرف سرخ پتے بکھرتے تھے۔۔ جب سرد جنگلے سے لگ کر۔۔ بہت دکھ بھری نرم آنکھوں سے۔۔ کچھ دیر اس نے مری سمت دیکھا۔۔ پھر اک الوداعی اشارہ کیا۔۔ چار ہی سیڑھیاں تھیں۔۔ جہاں سے اتر کر۔۔ میں امکاں کے سنسان رستے پر آگے بڑھی۔۔اور پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا




خواب-4

رات کا آخری پہر تھا۔۔ چیخ کر اک ملازم نے آواز دی۔۔ مجھ کو ایسا لگا۔۔ میرے بابا کو اک سانپ نے ڈس لیا۔۔ پھر اندھیرے سے اٹھتے ہوئے شور میں۔۔ جیسے سب سے نمایاں مری چیخ تھی۔۔ دوڑ کر میں نے کھڑکی سے دیکھا۔۔ دھندلکے میں ڈوبے ہوئے راستے پر۔۔ اُنہیں چار لوگوں نے کاندھوں پر اپنے اٹھایا ہوا تھا۔۔ مگر ایک جانب سے ہاتھ اور پاؤں گھسٹتے چلے جاتے تھے۔۔ درد کی تیز آری سے، سہما ہوا میرا دل، کٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔
اجنبی سی عمارت تھی۔۔ اور پہلی منزل پہ۔۔ میں، نیم تاریک رہداریوں میں۔۔ انہیں ڈھونڈتی تھی۔۔ کسی شخص نے چھت کی جانب اشارہ کِیا۔۔ سیڑھیاں، نیم تاریک رہداریاں، فاصلے۔۔ وہ کہیں بھی نہیں تھے۔۔ کسی اور نے اگلی منزل کی جانب اشارہ کِیا۔۔۔ پھر وہی سیڑھیاں، راستے، فاصلے، گُھپ اندھیرا۔۔ لرزتے ہوئے میرے پاؤں۔۔۔ کسی نے وہاں نفی میں سر ہلا کر۔۔ بہت سرد آواز میں کچھ بتایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے گھر کی اُجڑی ہوئی چھت پہ۔۔ دھوپ اور وحشت برستی تھی۔۔ اور گرم جھونکے بگولوں کی صورت میں رقصاں۔۔ مری پیاری امّاں کے لانبے سیہ بال بکھرے ہوئے تھے۔۔ بدن خاک آلود۔۔ ہونٹوں پہ زردی تھی۔۔
دن کا کوئی آخری پہر تھا




خواب - 5

بہت تنگ ، پُر پیچ گلیاں تھیں ۔۔۔ ہلکا اندھیرا ۔۔۔ پرانے مکانوں کی بوسیدہ دیواریں ۔۔۔ سر پر جھکی آ رہی تھیں ۔۔۔عجب وحشت انگیز رستے تھے ۔۔۔ رستے سے رستہ ۔۔۔ اندھیرے سے کچھ اور اندھیرا نکلتا ہوا ۔۔۔ جانے پہچانے کچھ لوگ تھے ۔۔۔ جن کے ہمراہ میں اجنبی منزلون کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔ کسی نے کہا ” اس طرف سے گزرنا ہے ہم کو، چلو ساتھ تم بھی “ ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی دیر سے چل رہے تھے، مگروہ مقام ِطلب، اب بھی حد ِبصارت میں آیا نہیں تھا ۔۔۔ ” نہیں “ میں نے بیچارگی سے کہا ۔ ”مجھ کو دنیا کے کچھ اور بھی کام ہیں “ ۔۔۔۔۔ ہم سفر سارے رخصت ہوئے ۔۔۔ دل میں کچھ خوف اور کچھ اداسی لیے ۔۔۔ میں نے پیچھے پلٹ کر جو دیکھا، ذرا روشنی تھی ، کئی سیڑھیاں تھیں ۔۔۔ جہاں ایک دروازہ کھلتا تھا ۔۔ کمرے میں ہر شے گلابی تھی ۔ دیواریں ۔ دروازے ۔ پردے ۔ فضا ۔ پھول ۔ خوشبو۔ ہوا ۔ میری آنکھوں کی حیرت ۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے بہت دور سے گنگنا کر کہا ۔ ” اس سے اچھا ہے ، جو کچھ رکھا ہے تمہارے لیے ۔۔۔ اس سمے تو اندھیرے میں واپس پلٹنا پڑے گا ۔ بہت دور ۔ ۔ ۔ تنہائی کی سرد گلیوں میں، کچھ اور چلنا پڑے گا“








ALPHA STATE


ہمیشہ آنکھ لگتے ہی میں اپنے جسم سے باہر نکل کر بھاگتی ہوں ۔۔۔۔ خوف کے جنگل میں ۔۔ لمبی دھوپ کے صحراؤں میں ۔۔ دریاؤں میں ۔۔ دریا کے دہشت ناک گہرے ساحلوں میں ۔۔ اجنبی دیسوں میں ۔۔ ویراں شہر کی سڑکوں پہ ۔۔ پر اسرار گلیوں میں ۔۔ پرانے اور بوسیدہ مکانوں میں ۔۔ بہت سایا زدہ کمروں ۔۔ عجب آسیب والی سیڑھیوں میں ۔۔ نیلے، پیلے،لال چہروں میں ۔۔ سروں سے عاری جسموں میں ۔۔ ہر اک جانب سمٹتے پھیلتے سایوں میں ۔۔ اور سایوں سے سانپوں میں بدلتے دشمنوں میں جا نکلتی ہوں ۔۔۔۔ بہت ڈرتی ہوں ۔۔ ڈر کر چیختی ہوں ۔۔ واپس آتی ہوں ۔۔ اور اپنے جسم میں چھپ کر ہمیشہ جاگتی ہوں ۔۔۔۔۔

-------------------------------------------------
الفا سٹیٹ ۔۔ نفسیات کی رُو سے وہ ذہنی کیفیت، جس میں انسان ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے یا خود کو کسی غیر مرئی طاقت کے زیر اثر محسوس کرتا ہے۔




















دو نیم


ہمیشہ آنکھ لگتے ہی قدم اک خواب میں رکھا

وہ گہرے راز جیسا خواب، جس میں گھپ اندھیرا تھا
کہیں پر زرد رُو شب تھی ۔۔۔ کہیں کالا سویرا تھا
عجب پُر پیچ ، لمبے راستے پھیلے ہوئے ہر سُو
نگر سویا ہوا ۔۔۔ جیسے کسی نے کر دیا جادو
جہاں پاؤں سے پاؤں جوڑ کر تنہائی چلتی تھی
دھواں اٹھتا تھا باغوں سے، ہوا میں آگ جلتی تھی
کہیں تھےآشنا سے خال و خد، انجان چہروں پر
چمکتی جاگتی آنکھیں کہیں، بے جان چہروں پر
مناظر۔۔ وحشتوں، ویرانیوں، اجڑے مکانوں کے
سفر۔۔ دریاؤں کے، صحراؤں کے، گزرے زمانوں کے
ہمیشہ آنکھ لگتے ہی ۔۔۔ پریشانی نئی دیکھی
چھڑایا زندگی سے ہاتھ، پھر بھی زندگی دیکھی

کبھی گہری رسیلی نیند کا امرت نہیں چکھا

;;;;;

No comments: