Monday, November 9, 2009

45- رستہ ء صد چراغ تھا

;;;;;

پھول روش روش پہ تھے، رستہ ء صد چراغ تھا
کون کہے گا اِس جگہ دشت نہیں تھا، باغ تھا

اِس طرح درد سے بھرے اِس طرح ٹوٹ کر گرے
جیسے کہ چشم تھی سبو جیسے کہ دل ایاغ تھا

جب سے نگاہ ہو گئی اخترِ شام کی اسیر
شب کی نہ کچھ خبر ملی دن کا نہ کچھ سراغ تھا

ہم نے بھی خود کو حجرہء خواب میں رکھ لیا کہیں
کوئی جو کم نگاہ تھا کوئی جو کم فراغ تھا

وصل ِ زمین و آسماں دیکھ چکی تھی ایک بار
چہرہء شام ِ انتظار اس لیے باغ باغ تھا

اس میں تو کوئی شک نہیں ہم میں چمک دمک نہیں
آئنہء نگاہ ِ دوست آپ بھی داغ داغ تھا

سیرِ جہاں کے باب میں دونوں ہی سَیر چشم تھے
ایک کو صد ِ راہ دل، اک کے لیے دماغ تھا

صبح ہوئی تو سامنے چہرہء شہر ِ بے تپاک
رات ہوئی تو منتظر خانہء بے چراغ تھا

;;;;;


No comments: