Monday, November 9, 2009

دھند گہری ہو رہی -23

;;;;;

اک کھیل ۔۔۔ جس کے سب کے سب کردار اصلی ہیں
یہ میں اور تم ۔۔۔ یہی وہ ۔۔۔ اور سب
جن کو نہیں معلوم ۔۔۔۔ کیا اصلی ہے کیا نقلی
اک ایسا کھیل ۔۔۔ جس کو لکھنے والے نے لکھا ہے
نیند کے اور جاگنے کے درمیاں
اس کھیل میں وقفے بھی آتے ہیں
برابر زندگی کے ۔۔۔ ایک وقفہ ہے
مگر وقفے میں بھی یہ کھیل جاری ہے
ہدایت کار نے اس ضمن میں کوئی ہدایت دی تو ہو گی
ہاں ۔۔۔ مگر پروا ہدایت کار کی کس کو ؟
سو اب اُس وقت سے ۔۔۔ اِس وقت تک ۔۔۔ اور آنے والے وقت تک
یہ کھیل جاری ہے
بہت بے چین ہو ؟
اچھا تو لو ۔۔۔ اب پردہ اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔ مگر منظر ؟
چلو اب فرض کر لو کوئی ۔۔۔۔

( منظر )

میں: __ اگرچہ ڈھونڈنے نکلے تو ہیں پر رات کالی ہے ذرا ۔۔۔۔
تم: ___ اب صدا دینی پڑے گی ۔۔۔۔
وہ: ___ صدا خود روشنی ہے جبکہ ہم دشتِ طلب میں ہیں ۔۔۔
صدا دینی پڑے گی
سب: __ کوئی ہے ؟ کوئی ہے ؟ کوئی اگر ہے تو پکارے


میں: ___ خموشی ؟ کیا انوکھی خامشی ہے ۔۔۔۔
تم:___ درختوں سے اُبھرتی ۔۔۔ راستوں ہر پھیلتی یہ خامشی ۔۔۔
وہ:___ کس قدر تنہا درختوں کے یہ جھنڈ ۔۔۔ آنکھوں کے آگے پھیلتے یہ راستے
صحرا میں کب ہوتے ہیں ایسے جھنڈ ۔۔۔ ایسے راستے ؟
سب: ___ ہے کوئی صحرا میں یا ۔۔۔۔ ؟

میں:___ دیکھنا وہ چاند نکلا ہے ۔۔۔۔ ذرا دیکھو تو ۔۔۔
تم: ___ صحرا کی چاندی پر جو بکھرے چاند کا سونا ۔
تو کیسا رنگ بنتا ھےانوکھا ۔
میں:___ مگر دل پر اداسی چھا رہی ہے ، خوف اب باقی نہیں ۔۔
ان دیکھی کا اور ان سنی کا ۔۔۔
تم: ___ تو کیا وہ ان کہی کا خوف بھی ؟
میں: ___ ان کہی ؟ میں نے کبھی سوچا نہیں
وہ: ___ ان کہی میں خوف بھی، امکان بھی پوشیدہ رہتا ہے ۔۔ مگر امکان میں
پوشیدگی ہے ۔۔۔ خوف بھی ہے ۔۔۔ ان کہی بھی
سب:__ کہیں پوشیدہ ہے کوئی یہاں ؟


میں:__ جب یہ پہلی بار چاہا تھا کہ نکلوں اس سفر پر ۔۔۔ سب نے روکا تھا
مگر کوئی نہ تھا ۔۔۔ جو بڑھ کے کہہ دیتا کہ مت جاؤ ۔۔۔ رکو میرے لیے
تم: __ میں نے چاہا تھا مگر پھر ۔۔۔ میرا اپنا بھی ارادہ اس سفر کا ہو گیا ۔۔۔
اور ڈھونڈنا کیسا ؟ مجھے دراصل تو مقصود تھی تھوڑی رفاقت ۔۔۔
میں: __ اگر تم نے کہا ہوتا تو شاید ۔۔۔
وہ: ___ مگر کہنا، نہ کہنا ۔۔۔ چاہنا، کم چاہنا ۔۔ کب اختیاری ہے
میں: __ ساری بات اُس سے مختلف تھی، تم نے جو سمجھی مگر ۔۔۔
تم: __ بات جو تم کہہ نہ پائیں آج تک ۔۔۔ اب کہہ بھی دو تو کیا ؟ چلو ۔۔۔
سب: __ ہے کوئی اس جھنڈ سے آگے ۔۔ کوئی ہے ؟


میں:___ یہ کیسے راستوں سے راستے ۔۔۔ نکلے چلے آتے ہیں ۔۔۔
تم:___ الفت کہاں ہوتی ہے گوشہ گیر ایسی ۔۔۔ جیسی تم نے کی ۔۔۔
خبر ہونے نہ دی مجھ کو بھی تم نے ۔۔۔۔
میں: __ مجھے خود بھی خبر کب تھی کہ ایسا واقعہ ۔۔۔۔۔
وہ:___ خیر ، الفت تو خبر ہے خود ۔۔یہی تو واقعہ ہے ۔۔ حادثہ ہے ۔۔ راستہ ہے
سب: ___ کوئی رستوں سے آگے ہے ؟ کوئی ہے ؟؟


میں:___ نجانے رات کتنی جا چکی ہے ۔۔۔
تم: ___ اگر ہم ساتھ ہیں، پھر فکر کیسی ؟
میں:___ مگر ہم ساتھ کب ہیں ؟ ہم تو اس دشتِ طلب میں، اپنی اپنی ذات
پیچھے چھوڑ کر ۔۔۔ نکلے ہیں اُس کو ڈھونڈنے ۔۔۔
وہ:___ ڈھونڈنے والے تو راتوں کو نہیں سوتے ۔۔ وہ اپنی ذات کے
غم میں نہیں روتے کبھی
میں: ___ سوچتی تھی ۔۔۔ میں بھی اپنا خواب دیکھوں ۔۔۔
تم:___ محبت، خواب کی ڈالی سے ٹوٹا پھول تو ہے ۔۔۔
وہ: ___ محبت خار بھی ہے ۔۔۔ دل کی گہرائی میں ٹوٹی ایک نوکِ خار
سب: ___ باطن میں گہری رات کے، کوئی تو ہو گا


میں:___ سفر باقی ہے کتنا ؟ پاؤں اب شل ہو چکے ہیں ۔۔۔
تم: ____ سہارا چاہئے تو ہاتھ حاضر ہے ۔۔۔ یہی وہ ہاتھ ہے
جو اس سے پہلے بھی بڑھا تھا ۔۔۔
میں: ___ سہارا ؟ یاد ہے شرطِ سفر کیا تھی بھلا ؟
تم: ___ رات باقی ہے ۔۔۔ سفر لمبا ۔۔۔ رفاقت کی ضرورت تو رہے گی
وہ: ___ مگر جو ڈھونڈنے نکلیں ۔۔ رفاقت کے تو قائل ہی نہیں ہوتے ۔۔۔
یہ تنہائی مقدر لوگ ۔۔۔۔
میں:___ پیاسی ہوں ۔۔۔ کیا پانی ملے گا ؟
تم:___ محبت آدمی کو اس طرح سیراب کر دیتی ہے ۔۔۔
پھر مشروب کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔
وہ:___ پیاس بھی تو ہے محبت ۔۔۔ پیاس ۔۔۔ گہری پیاس
سب:___ کوئی رفاقت کی حدوں کے پار ہے ؟


میں:___ صبح کے آثار ہیں ۔۔ اور دھند اتری آ رہی ہے ۔۔
تم: ___ افق سے راستوں پر اور درختوں پر ۔۔۔ فضا سے اپنے چہروں پر
یہ پلکی دھند ۔۔۔
میں:__ اور پھر یہ دشتِ ہول ۔۔۔ اور یہ دل کی ویرانی ۔۔۔ یہ دل ۔۔۔
تم: ___ ساتھ کی راحت ؟
میں: ___ جانے جھوٹ کیا ہے ۔۔۔ سچ ہے کیا ؟
تم:___ ہم ہی سچ ہیں
وہ:___ نہیں ہے جھوٹ کوئی ، ہاں مگر کوتاہ نظری ۔۔۔
سچ نہیں کچھ، بس ارادہ اور طاقت
سب:___ کوئی ہے، جھوٹ میں یا سچ میں پوشیدہ ؟ پکارے ۔۔۔۔


میں: ___ سفر کتنا ہے ؟ کتنا دشت باقی ہے ؟ بتاؤ
تم:___ نہیں اندازہ کچھ اتنا ۔۔ مگر لگتا ہے ۔۔۔ عمروں ہی سے ہم
اس دشت میں ہیں ۔۔ اور صدیوں سے سفر میں ہیں ۔۔۔
کبھی گر ناپ سکتے رات کو ۔۔۔ اور دشت کو ۔۔۔ اور اس سفر کو ۔۔۔
وہ: ___ سفر ناپا نہیں کرتے ۔۔۔ تلاش آغاز کرتے ہیں، تو پھر انجام کا سوچا
نہیں کرتے ۔۔۔ صدا کرتے ہیں، بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔ ہر اک موڑ پر
ٹھہرا نہیں کرتے ۔۔ چلو آواز دیتے ہیں ۔۔۔ چلو آواز دو ۔۔۔
سب: ___ کوئی ہے ؟ کوئی یہاں پر ہے ؟ کہیں پر کوئی ہے ؟ ہے تو پکارے ۔۔۔
کوئی تو ھو گا ۔۔۔۔ کہیں پر کوئی تو ہو گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔

جواب آتا نہیں ہے
باز گشت آتی ہے
اور اب دھند گہری ہو رہی ہے

( پردہ گرتا ہے )

;;;;;

No comments: