Monday, November 9, 2009

7-آخرِشب

;;;;;

آخر ِشب ۔۔۔ فلک سے اترتی ہوئی شبنمیں ساعتوں میں
ستاروں کی جھلمل تلے ، جب زمیں سو رہی تھی
زمیں ۔۔۔ سانس لیتی ہوئی ایک عورت کے مانند
کھولے ہوئے نقرئی چھاتیاں، سو رہی تھی
تو سانسوں کے اس زیرو بم میں
سمندر، پہاڑوں سے ملتے ہوئے ۔۔۔ جاگتا تھا
فضا ۔۔۔ گھور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی
پر اندھیرے سے جیسے کوئی آنکھ مانوس ہو
اور سب دیکھتی ہو
ستاروں کی جھلمل فلک سے اترتی ہوئی
اور ترائی میں ۔۔۔ بھیگا ہوا حسن

اس نے کہا
حسن اندھیروں میں کھلتا ہے''
اور روشنی اک لبادہ ہے
آنکھیں، بہت دور تک دیکھنے کی ہوں خوگر
تو اکثر بہت پاس کی شے نہیں دیکھ پاتیں
محبت سِکھاتی ہے جب
دیکھنا ، سوچنا، یاد رکھنا
تو نفرت کو پوشیدہ رکھو
کہ نفرت وہ پتھر ہے ، جس کو
پہاڑون کا سینہ نہیں جھیل پاتا
وہ شعلہ ہے، جس کو سمندر بجھانا بھی چاہے
تو قاصر رہے

اور محبت کرو
سیدھی سادی محبت کہ جو زندگی کا
بہت دور تک ۔۔۔ آخری دم تلک ساتھ دے
صورتوں سے، اداؤں سے، ناموں سے، روحوں سے
سب سے محبت کرو
ہاتھ میں ہاتھ منزل کا پہلا نشاں ہے
تو منزل مسافت کی حد پر گڑی ہے

مگر زندگی
تیز پانی کے ریلے کی زد پر پڑا ۔۔۔ گول پتھر
بلندی سے گرتی ہوئی آبشاریں نہیں دیکھتیں
ان کی زد پر ہیں پتھر کہ خاشاک و خس
آدمی
پتلیوں کی طرح ۔۔۔ آسماں کے تلے
ایک سفاک ڈوری میں جکڑا ہوا
ناچتے ناچتے ناچتے
ختم ہو جائے گا

;;;;;

No comments: