Monday, November 9, 2009

15-بہشت

















;;;;;

کیسا اچھا تھا
ہم پھولوں والے باغ میں مل کر رہتے
اور اُس گہرے کنج میں

( جس میں جھانک کے میں چیخی تھی
اور تیرے سینے سے لپٹ گئی تھی

اپنی اپنی فکروں کی گٹھڑی کو رکھ کر
بھول ہی جاتے
بہتر ہوتا
ہم اپنے اپنے چغے اور دستار اتار کے
اس گٹھڑی میں رکھ دیتے
اور پتوں کا ملبوس پہن کر
گھٹتے بڑھتے سایوں سے باتیں کرتے

پھر جب تو پورا سورج بن کر ہنس پڑتا
میں آدھا چاند بنی، پہروں روتی رہتی
تو اپنے ہونٹوں سے میرے آنسو پیتا
پھر جب میں رات کی رانی ہوتی
تب تو بھنورا بن کر ساری راتیں
۔ ۔ ۔ مجھ پر منڈلاتا
پھر جب تو دن کا راجا ہوتا
میں تتلی کے روپ میں
تیرے چاروں اور پھرا کرتی
صبحوں میں تیرے میرے سِحر کی روشنی
اور شاموں میں تیری میری
آسیبی آنکھوں کا سرمہ ہوتا

پھر سب طائر
اپنی اپنی بولی بھول کے
صرف ہمارا نغمہ گاتے
ہر جانب سے خلقت آتی
اور ہم میں شامل ہو جاتی
پھر باہم سب سمتوں میں
ہم اپنے رب کو
سجدہ کرتے

;;;;;

No comments: