Monday, November 9, 2009

2-ہویدا













;;;;;

ہزاروں بارشیں گزریں، کئی طوفاں گرے اس پر، نہ ٹوٹا یہ
ہزاروں بارشیں لفظوں کی
مجھ پر بھی گریں، گزرے کئی طوفاں، نہ ٹوٹی میں ۔۔۔
کسی نے جب کوئی پتھر تراشا، سر جھکایا اس کے آگے
اور میں نے سر جھکایا اپنے آگے جب
کھلا مجھ پرمیں پتھر ہوں

بھڑک کر خود، کسی کو سر سے پاؤں‌تک جلا دینا
جو بجھ جانا تو اس کو بھی بجھا دینا ۔۔۔ میں جب بھڑکی، اسے بھڑکا دیا
خود جل بجھی، وہ بجھ گیا، پھر راکھ بن کر اڑ گیا لیکن مری حدت
مری گرمی بنی اس کے بدن کی آنچ جب
اس دم کھلا مجھ پرمیں شعلہ ہوں

صبا گزرے تو ویراں راستوں پر نقش ِ پا چھوڑے
صبا کلیوں کو جوبن دے، صبا پھولوں کے لب چومے ۔۔۔
میں اس کے دل کے رستوں سے جو گزروں، نقش ِ پا چھوڑوں
بدن کو تازگی دوں اور لبوں کو پھول کر آؤں،
لباس ِ سادہ کو چھو لوں تو وہ بھی سرسرائے ریشمیں ہو کر
کھلا مجھ پر صبا میں ہوں

گلوں کے زرد بیجوں سے اگے خوشبو کہ پردوں میں
کسی پردے سے پھوٹے
کھل نہ پائے ۔۔۔ کھل نہ پائے جب یہی مجھ پر
کہ کس پردے میں، کس نقطے میں خوشبو ہے مری فطرت کے
ایسے میں
کھلا مجھ پر کہ گل میں ہوں

وہ آوارہ کہیں جائے نہ جائے، اک جگہ پھوٹے تو پھیلے ہر جگہ
ہر اک مشام ِجاں معطر کر کے ہر آغوش میں مچلے
مگر پھر بھی رہے سادہ ۔۔۔
وہی آوارہ دلداری، وہی معصومیت مجھ میں
کھلا مجھ پر میں خوشبو ہوں

کھلا مجھ پر
میں پتھر ہوں
میں شعلہ ہوں
صبا میں ہوں
میں گل ہوں
اور میں خوشبو ہوں
خدا میں ہوں
میں بندہ بھی
خود اپنے آپ سے اوجھل بھی ہوں
خود پر ہویدا بھی

;;;;;

1 comment: