Wednesday, November 18, 2009

63 -Muse

;;;;;

شاید اس کو ہے محبت مجھ سے
پارناسس سے اتر آتا ہے
میری آنکھوں میں سما جاتا ہے
مجھ پہ افسوں کی طرح چھاتا ہے
شام رکتا ہے کبھی۔۔۔رات ٹھہرتا ہے کبھی
نیند میںخواب کا چہرہ بن کر
جاگتے میں مرا سایا بن کر

دلِ ویراںمیںپری زاد سا آتا ہے کبھی
میرے ہاتھوںکو محبت سے دباتا ہے کبھی
کبھی رخسار سے رخسار لگا دیتا ہے
اپنی آنکھوں کو اک آیئنہ بنا لیتا ہے

مجھ سے کہتا ہے کہ دیکھو ذرا اس چہرے پر
کسی محبوب کی قربت کی چمک ہو جیسے
نرم آنکھوںمیں ستاروںکی دمک ہو جیسے
جیسے آتی ہو رگِ جاںسے لہو کی یہ صدا
یا کہیں دور سے لہراتا ہو سُربانسری کا

چھیڑتا ہے کبھی بالوں کو، کبھی ہونٹوں کو
چومتا ہے کبھی پیشانی، کبھی آنکھوں کو
پھیلتا ہے مرے اطراف میں جادو کی طرح
اجنبی پھولوںکی خوشبو کی طرح
میرے پہلو سے لگے جب۔۔۔ تو لگا رہتا ہے
عاشقِ زار کے پہلو کی طرح

موجہء بادِ صبا بن کے کبھی
میرے ملبوس کو لہراتا ہے
آنکھ بھر کر جو اسے دیکھ لوں میں
جھوم جاتا ہے، مہک جاتا ہے
پاس رہنے کو۔۔۔بہت دیر تلک رہنے کو
آن کی آن میں بھر لیتا ہے کتنے بہروپ
کبھی دیوار پہ چغتائی کی تصویر کوئی
کبھی اس کانچ کے گلدان میں اک نرگسی پھول
کبھی روزن میں چمکتی ہوئی اک ننھی کرن
کبھی کھڑکی سے اُدھر پھیلتی۔۔۔چمکیلی دھوپ

دشت بن جاتا ہے۔۔۔جنگل کبھی بن جاتا ہے
کبھی مہتاب، کبھی آب، کبھی صرف سراب
دُھند ہو جاتا ہے۔۔۔ بادل کبھی بن جاتا ہے
میں جو چاہوں تو برستا ہے یونہی موسلا دھار
اور نہ چاہوں تو عجب عالمِ کم شب کی طرح
دلِ بے کل پہ اُتر آتا ہے

رات بھر۔۔۔ میرے سرہانے سے لگے لمپ کے ساتھ
ایک ہلکے سے اشارے سے ہے بجھتا، جلتا
کبھی اُس گوشہء خاموش میں اک بُت کی طرح
اور کبھی وقت کی رفتار سے آگے چلتا

موج میں آئے تو شب بھر نہیں سونے دیتا
خود ہی بن جاتا ہے بچھڑے ہوئے ساتھی کا خیال
کیف اور درد سے ہو جاتا ہے خود ہی سـیّال
مجھ کو اُس یاد میں تنہا نہیں رونے دیتا
شوق بنتا ہے کبھی۔۔۔عشق کبھی
وصل بنتا ہے کبھی۔۔۔ہجر کبھی
دل نے کب دیکھا تھا چہرہ اِس کا
عشق تھا پہلا شناسا اِس کا

عشق وہ دھوم مچاتا ہوا عشق
جسم پر رنگ جماتا ہوا عشق
دل کو اک روگ لگاتا ہوا عشق

عشق کے سارے ستم ساتھ مرے اس نے سہے
عشق کے ہاتھ سے جو زخم لگے۔۔۔اس نے بھرے
وصل اور ہجر کے افسانے سُنے اور کہے
ہفت اقلیم کے سب راز بتائے اس نے
الف لیلہ کے سبھی قصے سنائے اس نے
میری تنہائی میں الفاظ کا در باز کیا
میری پتھرائی ہوئی، ترسی ہوئی آنکھوں میں
نئی امید، نئے خواب کا آغاز کیا

خواب، خواہش سے چمکتا ہوا خواب
خواب، رنگوں سے مہکتا ہوا خواب
میری پلکوں سے ڈھلکتا ہوا خواب

خواب کے پیچھے مرے ساتھ بہت بھاگتا ہے
میں جو سو جاؤں تو یہ دیر تلک جاگتا ہے
دید کی طرح نگاہوں میں سمٹنے والا
غمِ جاناں کی طرح دل سے لپٹنے والا



شاید اِس کو
ہے محبت
مجھ سے
شوق بن جاتا ہے
یہ، عشق میں
ڈھل
جاتا ہے
پھر مری
زیست کا
مفہوم بدل
جاتا ہے




اپنے پہلو سے نہیں پَل کو بھی ہِلنے دیتا
کارِ دنیا۔۔۔۔غمِ دنیا کا بھلا ذکر ہی کیا
مجھ کو مجھ سے نہیں ملنے دیتا

میرے قالب میں سما جاتا ہے
میرے آیئنے میں آ جاتا ہے
چشمِ حیران کو غزلاتے ہوئے
شاعری مجھ کو بنا جاتا ہے

__________________________________

میوز۔۔۔ یونانی اساطیر کے مطابق زیوس کی نو بیٹیاں، جن میں ہر ایک کسی علم اور فن کی دیوی ہے۔ یہ لفظ انگریزی میں شاعرانہ الہام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اسی لیے اسے صیغہء تذکیر میں استعمال کیا ہے۔
پارناسس۔۔۔ ایک اساطیری پہاڑ، جس پر یہ نو دیویاں رہتی ہیں

;;;;;

No comments: