Monday, November 9, 2009

46- بات کی ہم نے

;;;;;

کچھ اجنبی سی صداؤں سے بات کی ہم نے
جب ایک شام ہواؤں سے بات کی ہم نے

اُنہیں بتایا پتہ آسمان والے کا
زمیں کے سارے خداؤں سے بات کی ہم نے

تھے اپنے خواب کے اک داستاں سرا ہم بھی
نگر کے خواب سراؤں سے بات کی ہم نے

سہارا کوئی نہ تھا دھوپ میں رفیقوں کا
سو ایک پیڑ کی چھاؤں سے بات کی ہم نے

دوبارہ اِس دل ِ مایوس میں اترنے کو
پلٹ کر آتی دعاؤں سے بات کی ہم نے

سفر کے بعد ضروری ہے ایک منزل بھی
چنانچہ راہنماوں سے بات کی ہم نے

جدھر ذرا سا گماں تھا تمہارے ہونے کا
ادھر سے آتی ہواؤں سے بات کی ہم نے

ہم اپنی خامشی سب کو کہاں سناتے ہیں
یہی بہت ہے خلاؤںسے بات کی ہم نے

سب اپنے طالع ِ بیدار کی تلاش میں تھے
جہاں کے بخت رساؤںسے بات کی ہم نے

یہ اہل ِعشق بھی کیا خاک سے بنے ہوں گے؟
عجیب شعلہ نواؤں سے بات کی ہم نے

;;;;;

No comments: