Monday, November 9, 2009

44-غم ہے کہاں خوشی کہاں

;;;;;

دیکھ، طلب کی راہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں
دل کی اس ایک آہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

اپنا یہاں کوئی تو ہے، تُو نہیں زندگی تو ہے
خانہء کم تباہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

سچ ہے کہ مدّتوں کے بعد راہ میں یونہی ہم ملے
پھر بھی تری نگاہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

سایہء خوابِ مختصر اب بھی جھکا ہے نیند پر
شب ہے تری پناہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

ایک نگاہ، اور پھر، کس کی مجال، دیکھتا
عشق کی بارگاہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

رنجش ِ ذات اور ہم؟ لطفِ حیات اور ہم؟
یوں بھی فقط نباہ میں،غم ہے کہاں خوشی کہاں

ہلتی ہوئی زمین پر بیٹھ کے دیکھتے رہیں
گردش ِ مہر و ماہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

اب بڑی دیر ہو چکی،اب تو یہ عمر کھو چکی
باقی دل ِ تباہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

;;;;;

No comments: