Monday, November 9, 2009

31-مری خواب گاہ میں

;;;;;

مجھے وہم تھا
مری خواب گاہ میں کوئی شے ہے چھپی ہوئی
کوئی سبز، سرخ لکیر سی
جو نظر اٹھاؤں ۔۔۔ تو ایک چیز حقیر سی
جو نظر بچے ۔۔۔ تو عجب طرح سے وہ جی اٹھے
کبھی رینگتی ہوئی فرش کے تن ِزرد پر
کبھی کانپتی ہوئی میرے بستر ِ زرد پر
جو سرہانےآ کے سمٹ گئی
تو وہیں سے نیند اچٹ گئی
کسی شب کو خواب کے پاس سے جو گزر گئی
تو وہاں سے خواب ہی کٹ گیا
کبھی سچ کی طرح مری نگاہ پہ کھل گئی
کبھی واہمہ سا مری نظر سے لپٹ گیا

ابھی پائیدان کے پاس تھی ۔۔۔ ابھی در میں ہے
کبھی خوف سا رگ و پے میں میرے اتر گیا
کبھی سنسنی سی کمر میں ہے
نہ میں جاگ پاؤں ۔۔۔ نہ سو سکوں
اور اسی سیاہ خیال میں
نہ ہنسوں ۔۔۔ نہ کھل کے میں رو سکوں
کہ وہ جھولتی ہوئی جھالروں سے چمٹ کے چھت سے لٹک گئی
کہ وہ چھت سے رینگتی رینگتی ۔ ۔ ۔ ۔
جو مرے بدن پہ چھلک گئی؟
اسی ڈر سے آنکھ دھڑک گئی

مرے گھر میں کوئی نہ آئے گا
کہ میں ہاتھ تھام کے تختِ جان سے اتر سکوں
مرے دل میں کوئی نہ آئے گا
کہ میں دل کی بات ہی کر سکوں
وہ سکوت ہے
کہ نہ جی سکوں ۔۔۔ نہ میں مر سکوں















کبھی وہم تھا ۔۔۔
مگر اب گماں ہے یقین پر
مری خواب گاہ میں سانپ ہے
میں رکھوں نہ پاؤں زمین پر

;;;;;

No comments: