Monday, November 9, 2009

42-کوئی تالی بجاتا ہے

;;;;;

ہماری زندگی کو اب خوشی سے خوف آتا ہے

محل میں سینکڑوں کمرے ہیں
جن کی بیسیوں رہداریاں ہیں
بیسیوں رہداریاں ۔۔۔ پر پیچ ۔۔۔ پر اسرار
خوشیاں جن میں رنگا رنگ
چمکیلے، بھڑکتے پیرہن پہنے، گزرتی ہیں
بہت اِترا کے چلتی، جھانجھنیں جھنکاتی
اور بے وجہ اکثر کھلکھلاتی
غم زدوں کا منہ چڑاتی

غم، کسی ویران حجرے میں
بہت سنسان گوشے میں
بڑی بیچارگی سے منہ چھپاتا ہے
محل میں اب کسی کو
اس سے ملنی کی ضرورت ہی نہیں ہے
سچ یہ ہے اس کو
محل میں پاؤں رکھنے کی اجازت ہی نہیں ہے

زندگی
بوسیدہ کپڑوں میں جواں تن کو چھپائے
شہر کی پر شور سڑکوں سے گزرتی ہے
پھٹے جوتوں میں اس کے پاؤں جلتے ہیں
گلابی گال ۔۔۔ لمبی دھوپ کی یکساں تمازت سے
پگھلتے ہیں،
رفاقت کے لیے ترسی ہوئی ہے زندگی
منزل سے ہے ناآشنا
ہونے نہ ہونے کی ادھوری کشمکش میں مبتلا

غم
راستے پر زندگی کو دیکھتا ہے
دیکھتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔
آخر زندگی پلکیں اٹھاتی ہے
محبت کے لیے ترسا ہوا غم، مسکراتا ہے
محل کے اک جھروکے سے کوئی تالی بجاتا ہے

;;;;;

No comments: