Monday, November 9, 2009

14- سسکنے لگی ریت

;;;;;

سفر آغاز کِیا کیا کہ سسکنے لگی ریت
سانس میں بھر گئی آنکھوں میں کھٹکنے لگی ریت

دل کو پتھر سے جو ٹکرایا تو جلنے لگی آگ
تن پہ صحرا کو لپیٹا تو بھڑکنے لگی ریت

ترے سناٹے میں اس طرح سے گونجی مری بات
کہ مرے پاؤں کے نیچے سے سرکنے لگی ریت

تیز رَو اتنا نہ بن اے مرے صحرا زادے
صبر اے دل! تری رفتار سے تھکنے لگی ریت

غم مرا تھا مگر اک عمر سے گریاں ہے یہ رات
جوگ میرا تھا، جسے لے کے بھٹکنے لگی ریت

اب کریدے بھی تو کیا پائے گا یہ ناخن ِہوش
اور گہرائی میں کچھ اور دہکنے لگی ریت

کس کی آواز کا جادو تھا کہ بہنے لگی رات
کس کی آہٹ کا فسوں تھا کہ دھڑکنے لگی ریت














چاند نکلا ۔ ۔ ۔ تو بہت دور تلک پھیل گیا
نیند سے جاگ اٹھی اور چمکنے لگی ریت

;;;;;

No comments: