Monday, November 9, 2009

30-ختم ہوئی کاوش ِدل

;;;;;

منزل ِخواب لٹی، ختم ہوئی کاوش ِدل
اب تو بے چارگی ِجسم ہے اور کاہش ِدل

برف سی جمنے لگی معبد ِدل پر آخر
سرد ہونے لگا آتش کدۂ خواہش ِدل

پاؤں کے آبلے سہلانے کی فرصت کس کو
چین لینے نہیں دیتی ہے یہاں سوزش ِدل

اک فلک زاد کے چہرے پہ نظر ٹھہری ہے
لے کے جاتی ہے کہاں دیکھیے اب گردش ِدل

کیا کریں، اس کے لیے تن کو لگا لیں کوئی روگ؟
سخت انجان ہے، کرتا ہی نہیں پرسش ِدل

چشم حیران جدا، عقل سراسیمہ الگ
اور بڑھتی چلی جاتی ہے ادھر سازش ِدل

آنکھ میں بھیگی ہوئی شام کا منظر ہی رہا
کرۂ خواب پہ ہوتی ہی رہی بارش ِدل

ہم بھی خاموش گزر جائیں گے اوروں کی طرح
لے بھی آئی تیرے کوچے میں اگر لغزش ِدل

سرد کرتا ہے لہو، تیرے زمستاں کا خیال
منجمد ہونے نہیں دیتی مگر تابش ِدل

کوئی آئے تو چراغاں ہو سبھی راستوں پر
کوئی ٹھہرے تو سجے بزم گہ ِ خواہش ِدل

لب اگر بند رہے، آنکھ اگر ساکت تھی
تو جو آیا، ہمیں محسوس ہوئی جنبش ِدل

رونق ِ بزم سے کیا ہاتھ اٹھانا تھا کہ پھر
رنگ ِدنیا سے سوا ہو گئی کچھ رامش ِدل

راکھ کا ڈھیر ہی پاؤ گے پلٹ آنے پر
گر اسی طرح جلائے گی ہمیں آتش ِدل

شومئی بخت سہی، زندگی کچھ سخت سہی
پھر بھی قائم ہے ابھی حرمت ِجاں، نازش ِدل














نہ سہی گر نہیں ملتی کوئی آسائش ِدل
ہم تو اس شخص سے کرتے نہیں فرمائش ِدل

اس کی یادوں کے گلاب، اس کی تمنا کا چراغ
ایک مدت سے یہ ہے صورت ِآرائش ِدل

ایک مضراب سے بج اٹھتا ہے سازینۂ جاں
ایک تصویر سے ہو جاتی ہے زیبائش ِدل

توُ کہاں چھایا ہے، پھیلا ہے زمانہ کتنا
اِس نظر سے کبھی کی ہی نہیں پیمائش ِدل

اسُ سے کیا شکوۂ محرومی ِیک لطف ِبدن
جس کو معلوم نہیں معنی ِآسایش ِدل

اتنے وقت،اتنےعناصرسے بنا ہے یہ جہاں
کوئی بتلائے کہ کیونکر ہوئی پیدائش ِدل

راحت ِجاں سے گئے، اس کے بھی امکاں سے گئے
وہ جو ہوتی تھی کسی وقت میں فہمائش ِدل

یہ بجا ہے، نظر انداز کریں جسم کی بات
کوئی ٹالے گا کہاں تک بھلا فرمائش ِدل؟

;;;;;

No comments: